کبھی تو ملک کے لیے بھی کچھ کر لیں

بالآخر فوجی چناؤ اپنے اختتام کو پہنچا اور بظاہر انتہائی پرسکون انداز میں فوج کی کمان سنبھالنے کیلئے جنرل عاصم منیر کا نام سول ملٹری باہمی رضامندی سے ناصرف پیش کیا گیا بلکہ سرکاری سطح پر ان کا اگلے تین سال کیلئے بطور آرمی چیف تعیناتی کا نوٹی فکیشن بھی جاری کیا جا چکا۔ اسطرح گذشتہ کئی ماہ سے پھیلتی اْڑتی گرد آخر تھم گئی لیکن اس مرتبہ آرمی چیف کی تعیناتی پر جتنا شور و غوغارہا معمولی حالات میں شاید پہلے کبھی ہوا ہو۔
ہم کمان کی تبدیلی کے معاملہ پر کسی تناؤ کی کیفیت سے قطعی انکار کرتے ہوئے قیادت کی منتقلی کے عمل کو کسی کشمکش سے بالکل آزاد قرار تو نہیں دے سکتے لیکن یہ بھی حیران کن حقیقت ہے کہ ایک مرتبہ سمری منظوری کے بعد ہر سیاسی جماعت نے جنرل عاصم کو بطور آرمی چیف ویلکم ضرور کیا ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں چاہے سول گورنمنٹ کا انتخاب ہو یا ملٹری قیادت کی تعیناتی، پہلے معاملے میں بعد از انتخاب باہمی اختلافات اور میں نہ مانوں کا ماحول جنم لیتاآیا ہے اور دوسرے معاملہ میں قبل از تعیناتی کافی بے یقینی اور شکوک و شبہات کی سی کیفیت کا غلبہ رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو بنے 75سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ہر سال ملک پر قرض کا بوجھ زیادہ سے زیادہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ملکی معیشت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی، پارٹیاں اور چہرے سب بدل کر دیکھ لئے لیکن حاصل وہی کہ ملک دیوالیہ پن کے قریب ہے۔ معاشرتی و اخلاقی طور پر بھی ہم کوئی اتنے مہذب اور تہذیب یافتہ ثابت نہیں ہو پا رہے کہ آئے روز انٹرنیشنل میڈیا ہمارے سوشل ایشوز پر ہرزہ سرائی میں مصروف نظر آتا ہے۔ ہم نے ملک میں احتساب کا نعرہ و بیانیہ بھی بلند کر کے دیکھ لیا لیکن نتیجہ کیا نکلا پچھلے تین سالوں سے بین الاقوامی کرپشن انڈیکس پاکستان کے پوائنٹس میں مسلسل تنزلی کا اظہار کر رہا ہے۔ جزا و سزا کے نظام کا معیار بھی سب کے سامنے ہے معمولی قبضہ، قتل یا لین دین کے تنازعہ پر نسلیں انصاف کی منتظر رہتی ہیں اکثر اوقات کسی ملزم کی جیل میں ایڑیا رگڑ رگڑ کر موت کے بعد اس کی بریت کا فیصلہ ہمارے نظام انصاف کی برق رفتاری کی اعلیٰ مثال ہے۔مطلب ہم چناؤ کے ساتھ ساتھ کسی بھی دوسرے معاملے کی بات کر لیں ہر طرف سے زبوں حالی ہماری منتظر رہتی ہے۔
آخر ایسا کیا کیا جائے کہ ملک ترقی و استحقام کی راہ پر بھی چل پڑے اور دیگر تعیناتی و تقر ری کے معاملات بھی پر سکون ہو جائیں جبکہ آئین و قانون کی حکمرانی کا راج بھی ہوسکے۔ آئیں چند گزارشات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جن پر عملدرآمد سے ممکنہ طور پر ملکی معاملات میں بہتری کے کچھ آثار نظر آسکیں۔ سب سے پہلے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کے اْس بیان و ارادہ کو بھرپور انداز میں سراہا جانا چاہیے کہ فوج آئندہ سیاسی معاملات میں مداخلت کی نہ تو خواہاں ہو گی اور نہ کسی بہکاوے میں آئے گی۔ فوج کے اس بیان کے بعد برابر کی زمہ داری سیاسی قیادتوں پر رائج ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی لڑائیاں سیاسی پلیٹ فارم میں لڑیں نہ کہ گیٹ نمبر 4 کو کھٹکھٹائیں۔ علاوہ ازیں آئندہ ایسے حالات نہ پیدا ہونے دیں جس سے سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت کے آثار پیدا ہوسکیں۔ اس وقت سول قیادتوں کو صرف ایک مرتبہ باہمی اختلافات بھلا کر سوِل بالادستی کیلئے سر جوڑ لینے چاہیں اس میں ملک و قوم کا بھلا ہی ہے کوئی نقصان نہیں۔ فوجی سربراہ کی تعیناتی کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کے طریقہ کو اختیار کئے جانے پر بھی غور کیا جاسکتا ہے کیونکہ بطور پاکستانی ہمیں ہر گز اپنے جنرلز کی قابلیت پر زرہ برابر بھی شک نہیں۔ ہر پاکستانی کی نظر میں ہر جنرل ایک ہی اعلی معیار و قدر کا حامی نظر آتا ہے۔ اس لئے کیوں نہ ایک ایسا نظام متعین کر دیا جائے ۔
ہمارے ہاں رائج انگریز دور کے جوڈیشل سسٹم میں بھی جدید دور کے مطابق اصلاحات لائی جانی چاہئیں۔ ہمارے جوڈیشل سسٹم میں آج بھی پرائمری و سیکنڈری سکولوں کی مانند گرمی اور سردی کی چھٹیوں کا نظام رائج ہے جبکہ آج ہماری عدالتیں ایئرکنڈیشنراور ہیٹر جیسی سہولیات سے بھی مزین ہیں۔ توکیوں نہ عوام کو فوری انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتی ایام میں کچھ اضافہ کی تجویز کو زیر غور لایا جائے۔ا سی طرح سیاسی نوعیت کے کیسز کی بھرمار کو کم کرنے کیلئے بھی کچھ مخصوص رولز متعارف کروائے جانے چاہیں تاکہ عوامی مسائل کو معزز جج حضرات اور عدالتوں کا زیادہ سے زیادہ وقت دستیاب ہوسکے۔
یہ وقت ہے سول ملٹری قیادتیں یکجا ہو کر ملک کیلئے ایسے پراجیکٹس کو ممکن بنائیں جو بین الاقوامی لابنگ کا شکار ہو کر سرد خانے میں پڑے ہیں۔ نظامِ احتساب کو مضبوط بنانے کیلئے قوانین میں ایسی مثبت ترامیم کی اشد ضرورت ہے جن سے ملزم کو جرم سے بچنے میں معاونت کے بجائے اداروں کو جرم ثابت کرنے میں معاونت فراہم ہو۔