آڈیو کا طوفان،کامیاب جوان اور گھر آیا مہمان !!

قارئین! پاکستان کی "سیاسی سکرین" پر جس تواتر سے "آڈیوز اور "ویڈیوز" آرہی ہیں ،اس سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ "تفریح "کے دیگرشعبے کہیں بے روزگار ہوکر ٹھپ ہی نہ ہوجائیں ۔ عوام اب اس نئے "تفریحی چینل" کے اس قدر عادی ہوتے جارہے ہیں کہ اگر کچھ عرصہ تک کچھ "نیا" مارکیٹ میں نہ آئے تو بوریت ہونے لگتی ہے ۔ ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگ اب اپنی اپنی "آڈیوز "اور "ویڈیوز" کا "اعتراف" بھی کرنے لگے ہیں ۔ اس دلچسپ مقابلے میں مریم صاحبہ اب تک سب پر سبقت لئے ہوئے ہیں ۔ اس لئے بھی سبقت حاصل ہے کہ انکا سکور دونوں طرف سے چل رہا ہے ،ایک آڈیو یا ویڈیو وہ "نکال کر لاتی ہیں یا "نکلواتی " ہیں تو اس کے رد میں بھی کچھ نہ کچھ کسی "پراسرار"ذرائع سے نکل کر سامنے آجاتاہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ "مقابلہ "دونوں طرف سے جاری ہے اور اسکا کوئی منطقی انجام بھی نظر نہیں آرہا ۔ ویسے جس رفتار سے ویڈیوز ،آڈیوز لارئی جا رہی ہیں ،اس کو دیکھتے ہوئے ن لیگ کا نام تبدیل کرکے "آڈیو ،ویڈیو لیگ "رکھ دیا جائے تو بھی مضائقہ نہیں ۔ حال ہی میں ایک آڈیو ٹیپ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے منظر عام پر آئی جس پر خاصا شور اٹھا لیکن جلد ہی اسکا ڈراپ سین ہوگیا ۔ ایک نجی چینل نے اس کا کچھ ایسا پوسٹ مارٹم کیا کہ کسی فرانزک تجزیے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی ۔چینل نے جو ویڈیو اپنی سکرین پر دکھائی اس میں واضح طور پر دکھایا گیا کہ ایک صحافی کے ذریعے "بریک " کی جانے والی آڈیو میں جو جملے بولے گئے وہ سابق چیف جسٹس نے ایک تقریب میں سرعام کہے تھے ۔معروف قانون دان اظہر صدیق نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ آڈیو کا پاکستان اور برطانیہ میں فرانزک کرالیا گیا ہے جس میں وہ جعلی ثابت ہوئی ہے ۔ اظہر صدیق کے مطابق سابق جج شمیم کا مشہور "بیان حلفی " بھی جعلی ہے ۔ لندن کے جس نوٹری پبلک نے اسکو نوٹریفائی کیا ،اس کے پاس جاکر ایک شخص لاہور کا گورنر ہائوس بھی اپنے نام کروا آیا ہے اور "چارلی گتھری " نے اسکی بھی تصدیق کردی ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مریم صاحبہ اور انکی جماعت کے باقی لوگ اب اس بات سے انکار نہیں کر رہے کہ یہ "ٹیپ "ایڈٹ شدہ ہے اور اسے مختلف تقریروں سے جملے لیکر بنایا گیا ہے ۔ دلیل اب فقط اتنی رہ گئی ہے کہ ان کے مطلب کے جو ایک دو جملے اس ٹیپ میں ہیں اور تقریر میں نہیں ، وہ کہاں سے آئے ؟ اب یہ تو آڈیو جوڑنے والوں سے پوچھنا چاہے کہ انھوں نے وہ جملے کہاں سے لئے ؟ پھر ایک عوامی تقریر کے جملوں کے ساتھ انہیں کیوں جوڑا ؟
ایک "آڈیو " ایڈیٹنگ کے بغیر بھی آئی ہے جس میں مریم صاحبہ کسی کو ہدایات دے رہی ہیں کہ فلاں فلاں چینل کو آج کے بعد بالکل اشتہارات نہیں دینے ہیں ،انہیں یہ کریڈٹ بہرحال دینا چاہے کہ انھوں نے اس آڈیو کا برملا اعتراف کرلیا اور ہم جیسوں کو اس آڈیو کے ساتھ "مبینہ " لکھنے سے نجات مل گئی ہے ۔ اس "جوابی " آڈیو پر مریم اورنگزیب اور ن لیگ کے باقی ترجمانوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جن اشتہاروں کی بات کی جارہی ہے وہ حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے بطور پارٹی دیئے جانے تھے ۔ مریم اورنگزیب نے تو "مدعی سست گواہ چست" کے مصداق یہاں تک کہہ دیا کہ ان کی قائد نے یہ ہدایات 2009 ء میں دی تھی جب مرکز میں پی پی حکومت تھی ، یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ آڈیو میں مریم صاحبہ نے کچھ ایسے چینلز کے نام بھی لئے ہیں جن کی لانچنگ ہی 2015ء میں ہوئی ہے !! شاید یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں آڈیوز سننے ،دیکھنے والوں کو برجستہ کہنا پڑا ہے کہ "بنانے والوں" کو نہ شرم آتی ہے اور نہ ہی ایڈیٹنگ !!!
ثاقب نثار صاحب کی آڈیو جس نے بھی بنائی وہ اگر اسے مارکیٹ میں لانے سے قبل ایک دفعہ یوتھ افیئرز کے معاون خصوصی عثمان ڈار کے پاس لے جاتے تو یقینا َ وہ "ہنرسب کے لئے " پروگرام کے ذریعے اسکی کوالٹی کچھ بہتر بناسکتے تھے ! ویسے بھی عثمان ڈار نے کچھ روز قبل "کامیاب جوان"پروگرام کی دوسالہ کاکردگی وزیراعظم کے سامنے رکھ کر انہیں خوش کردیا ہے ۔ کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہوئے اس پروگرام میں وزیراعظم کے ساتھ مشیر خزانہ شوکت ترین ،اسد عمر دیگر وزرا اور زعماء بھی موجود تھے جس سے گمان گزرا کہ حکومت واقعی نوجوانوں کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو اسکا کریڈٹ عثمان ڈار کو جاتاہے جنھوں نے سیالکوٹ سے الیکشن ہارنے کے بعد ہمت نہیں ہاری اور تین سال کی دن رات محنت کے بعد ایسا پروگرام لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس پر تحریک انصاف آنے والے وقت میں بلاشبہ فخر کرسکے گی۔ ۔اس مرتبہ شاید یہ پہلی بار ہو رہاہے کہ چالیس لاکھ نوجوانوں کو سو د سے پاک اور آسان شرائط پر قرضہ دیاجارہا ہے جو کہ خوش آئندہ امر ہے ۔کیا ہی اچھا ہو "ریاست مدینہ" کے نعرے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پورے ملک سے سودی نظام کے خاتمے کی بھی کوئی راہ نکالی جائے ۔ وزیراعظم عمران خان کی نیت اور اخلاص پر شک نہیں ہے ،وہ جس ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اسکا تعلق اسلام کے فلاحی ،سماجی اور سیاسی نظام سے ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہے کہ اسلامی شعائر اور فرائض کا نفاذ بھی اسی "ریاست مدینہ " کا حصہ ہے ۔ اب یہی مثال لے لیں کہ کنونشن سینٹر میں منعقدہ تقریب تقریبا پانچ گھنٹے چلی ،سیکیورٹی کی وجہ سے ہال کے اندر، باہر جانے کی ممانعت رہی اور اور اس دوران شرکاء کی نماز عصر اور مغرب جاتی رہی۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ سرکاری تقریبات کا شیڈول تیار کرتے وقت نمازوں کے اوقات کا خیال رکھ لیا جائے ؟ ریاست مدینہ کے نام لیوائوں کا اتنا فرض تو بنتا ہی ہے ۔ ایک اور چیز جو قابل توجہ ہے کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے ،سرکاری تقریبات میں کھانا پینا ،حقہ پانی سب بند ہے ۔ پروگرام بڑا ہویا چھوٹا ،قاعدہ یہ ہے کہ گھر سے کھا کر آئیں اور واپس گھر جاکر کھائیں ، لیکن یہ اسلامی ریاست کا شیوہ نہیں بلکہ قرآن مجید اور تعلیمات نبوی میں جابجا کھانا کھلانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور اس میں یہ تمیز بھی نہیں کہ کھانے والا غریب ہے یا امیر …!
ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ؐ سے کسی شخص نے سوال کیا : بہترین اسلام کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا :
’’تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اْس شخص کوجسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔‘‘ہمارے ہاں کسی غریب کے گھر بھی کوئی مہمان آجائے تو اسے خاطر مدارت کے بغیر جانے نہیں دیا جاتا ۔ یہاں ریاست کے مہمانوں کو گھنٹوں بیٹھا کر بھوکا روانہ کردیاجاتا ہے ۔ کیا ریاست اتنی فقیر ہے کہ اپنے مہمانوں کو دو لقمے نہیں کھلا سکتی ؟ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قومی خزانے کو بچانے کی ساری کوششیں اپنی جگہ ،یقینا سرکاری رقم کے استعمال میں احتیاط ایماندار حکمران کی نشانی ہے لیکن مہمان نوازی ،سخاوت بھی اچھے حکمران کے ہی اوصاف ہیں ۔ویسے بھی حکمران کی طبیعت اور مزاج کا اثر پوری قوم پر پڑتا ہے ۔ اس لئے وزیراعظم صاحب بھلے کفایت شعاری کی پالیسی جاری رکھیں لیکن ایسی سرکاری تقریبات جہاں ،طلبائ ،بچے اور خواتین بلائی جائیں اور گھنٹوں انتظار کی سولی پر بھی لٹکائی جائیں وہاں کھانے کے اوقات میں سرکاری خزانے سے چند ٹکے خرچ ہوجائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ اسلامی تعلیمات اور روایات کے عین مطابق ہے ۔ ویسے بھی جب اربوں ڈالر کی لوٹ مار کے بعد بھی یہ ملک اللہ کے فضل و کرم سے قائم دائم ہے اور پھل پھول رہا ہے تو گھر آئے مہمانوں کو ایک وقت کا کھانا کھلانے سے "سرکار" کا کیا جائے گا؟