تحفے
شکیب جلالی کا شعر ہے کہ:
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
تحفہ وہی اچھا جو خوشی سے دیا جائے، زبردستی دی جانے والی شے تحفہ نہیں ہوتی بلکہ خواہ مخواہ کا بوجھ ہوتی ہے۔دوستو آج تحفے وتحائف پر بات کرنے کو دل چاہ رہا ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ کچھ روز قبل ایک قریبی دوست تشریف لائے۔ ان کی خوب آئو بھگت کی۔وہ جاتے ہوئے راقم الحروف کو ایک مگ اور ایک کتاب کا تحفے دیکر گئے۔میں نے فی البدیہہ ان کو ایک جملہ بولا کہا۔ مگ اور کتاب یہ وہ دوتحفے ہیں جن کے بارے میں میںیہ کہوںگا کہ کھائو پیو اچھا لیکن تعلیم ضرور حاصل کرو کیونکہ کتاب بہترین دوست اور بہترین تحفہ ہے۔ دوستوخیر یہ واقعہ تو موضو ع کی مناسبت سے مجھے یاد آگیا اوراسے بیان کردیا۔سچ ہے کہ تحفے اور تحائف شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس سے تحفے لینے والے اور دینے والے دونوں کی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے۔
آج کے دور میں کسی ایسے انسان کا ہونا بھی غنیمت ہے جو دل سے سلام کر لے، حال احوال پوچھ لے۔دل سے دیے گئے تحائف دونوں پارٹیوں کے لیے یادگار ہوتے ہیں۔ کسی کو تحفہ دینے کا سوچنا، پھر کیا تحفہ دینا ہے، یہ سوچنا، پھر اس تحفے کو خریدنا اور پیک کرنا اور پھر تحفہ دینا، یہ پورا عمل ہی اپنے آپ میں بہت خوبصورت ہے پر بعض تحائف خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری کے تحت دیئے جاتے ہیں۔ اگر نہ دی جائیں تو تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔تحفے صرف مواقع یا تقریبات کے محتاج نہیں ہوتے۔ کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی وقت دے سکتے ہیں۔ یہ ایک سدا بہار عمل ہے، اس میں خزاں کا نام و نشان نہیں ہوتا ہے۔ تحفے بغیر کسی وجہ کے بھی دیئے جاسکتے ہیں۔تحائف دیکر بڑی خوشی کا احساس ہوتا ہے اور رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ تحفہ ایک ایسی کنجی ہے جو دل کے دروازے کھول دیتی ہے۔ تحفے رشتوں پر بارش کی پھوار کا اثر رکھتے ہیں۔ تحفے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، تحفہ، تحفہ ہوتا ہے، وہ بیش قیمتی ہوتا ہے اور جب آپ کی پسند کا تحفہ ہو تو سونا پر سہاگا۔تحائف کو صرف مواقع کی حد بندی میں نہ باندھتے ہوئے چھوٹے چھوٹے کاموں کی ستائش کے ساتھ ساتھ تحفے بھی دیں۔ کسی مہمان کو تحفہ دینا ہے یا کسی کو بھجوانا ہے تو بچوں کے ہاتھ سے یہ کام کروائیں۔ ایسا کروانے سے انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ لینے سے بہتر عمل دینا ہے۔
بعض لوگ سامنے والے کے مرتبے کیمطابق تحفے دینے سے قاصر ہوتے ہیں اس لئے تحفہ دینے سے ہاتھ روک دیتے ہیں کہ کہیں سامنے والے کے سامنے یا تمام لوگوں کے درمیان ہماری بے عزتی نہ ہو یہ غلط روش ہے ایسے مواقعوں پر تحفہ دینے والا اپنی مالی حیثیت کے مطابق تحفہ دے اور سامنے والے پر بھی لازم ہے کہ اس کے تحفے کو سر آنکھوں پر رکھے نا کہ سامنے والے کو ذلیل کرکے اس کا تحفہ واپس کرے۔دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف دعوت پر جاتے ہوئے ایک معمول تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔ عام طور پر مٹھائی، چاکلیٹس یا کوئی ڈیکوریشن پیس وغیرہ تحفے میں پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ تحائف شکریہ کے ساتھ قبول ضرور کر لیے جاتے ہیں لیکن بعض اوقات لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہم نے اس چیز کا کیا کرنا ہے، اسے گفٹ پیکنگ سمیت سنبھال کر رکھ لیتے ہیں، بعد میں کسی اور کو گفٹ دینے کے لیے استعمال کر لیں گے، اور یوں یہ تحفہ آگے کا سفر طے کرتا رہتا ہے۔کہیں کوئی سالگرہ ہو یا شادی کی تقریب سب سے پہلا سوال ہمیشہ تحفے کا ہی ہوتا ہے کہ جناب کس طرح کوئی بھی تحفہ خرید کر وہ فنکشن بھگتا لیا جائے ، زیادہ تر لوگوں کی رائے یہی ہوتی ہے کہ بندہ آئے نہ آئے اپنے تحائف کی موجودگی یقینی بنائے ،دوسری طرف جو لوگ تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں وہ الگ سولی پرلٹکے ہوتے ہیںکہ کہیں کوئی انتظام کم نہ رہ جائے۔خیر اب اگر بات کریں تحفے کے انتخاب کی تو تحفے کیلئے سب سے پہلے خلوص نیت ایک اہم شرط ہے۔تحفے کا قیمتی ہونا ضروری نہیں اہم یہ ہے کہ آپ نے اس کو کس طرح پیش کیا ہے۔ کچھ لوگوں کیلئے سامنے گفٹ دینے سے بڑھ کر سرپرائز اہم ہوتا ہے اس لیے ان کیلئے کوریئرسروس کی خدمات حاصل کرنے کا اہتمام کر لیجئے۔ سب سے آخر میں ایک سب سے ضروری بات یہ ہے کہ تحائف کیلئے یہ کبھی مت کریں کہ کسی نے آپ کو کوئی تحفہ دیا ہو اور وہ آپ اپنے کسی دوست کو دے دیں ،کیونکہ ایک تو یہ حرکت غیر اخلاقی ہے۔تاہم قابل ذکر بات ہے کہ حضور جب کسی کے گھر جائیں تو خالی ہاتھ نہ جائیں اور کچھ نہ کچھ لیکر جائیںاس طرح سے آپ کی ہی عزت میں اضافہ ہوگا اور دوست کی نظر اور دل میں محبت بڑھے گی۔ اسکے ساتھ ساتھ ایک ضروری بات یہ ہے کہ تحفے کے بدلے میں تحفے کی خواہش ایک لاحاصل خواہش اور جستجو ہے۔ ایسا ہر گز ہرگز گمان نہ رکھیں کیونکہ اس طرح کی حرکتیں باشعور لوگوںکوزیب نہیں دیتیں۔تاہم اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے آپ کو کچھ دے دے تو انکار کرکے اس کی دل آزاری نہ کریں کیونکہ تحفہ توتحفہ ہوتا ہے یہ تو بے مول ہوتا ہے اوردینے والے کا دل اور خلوص دیکھیں اور اس کی قیمت کا کبھی تذکرہ نہ کریں۔کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے:
چاہیے کیا تمہیں تحفے میں بتا دو ورنہ
ہم تو بازار کے بازار اٹھا لائیں گے
ایک اور شعرنے کیا خوب کہا ہے
میں تحفہ لے کے آیا ہوں تمنائوں کے پھولوں کا
لٹانے کو بہار زندگانی لے کے آیا ہوں