پروفیسر قیوم نظر: میرے استاد، میرے محسن

قیوم نظر حلقۂ اربابِ ذوق کے ’بڑوں‘ میں بہت پہلے سے شامل تھے۔ ایک سے زیادہ دفعہ سیکرٹری بھی رہے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد حلقے میں کچھ نئے لوگ بھی شامل ہوگئے جن میں انتظار حسین، ناصر کاظمی، شہرت بخاری وغیرہ تھے۔ قیوم نظر کا گروپ پہلے سے موجود تھا۔ دونوں گروپوں میں حلقے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کشمکش شروع ہوگئی۔ چند سال قیوم نظر کا گروپ غالب رہا، پھر دوسرا گروپ غالب آگیا۔ حلقے نے بہت اتار چڑھائو دیکھے رفتہ رفتہ قیوم نظر اور ان کے گروپ کی اہمیت کم ہوتی گئی پھر قیوم نظر کی زندگی میں پے در پے ایسے حادثات ہوئے کہ وہ مجبوراً ادبی محفلوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ پہلا حادثہ یہ ہوا کہ ان کی نظر کمزور ہوگئی ۔ ان کے عزیز دوست انجم رومانی نے انھیں اس سلسلے میں بڑے خلوص سے ایک غلط مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ آنکھوں کے کسی معالج سے علاج کروانے کی بجائے آپ مجھ سے علاج کرائیں۔ میرے پاس اس کے لیے ایک بہت عمدہ کتاب ہے جس میں آنکھوں کے علاج کے لیے بہت اچھی ’ایکسرسائزز‘بتائی گئی ہیں۔ قیوم نظر کی سادگی ملاحظہ کیجیے کہ وہ انجم رومانی کے ہاں جا پہنچے۔ انھوں نے ایکسرسائز کرائی تو آنکھیں متورم ہوگئیں اور بینائی ایسی خراب ہوئی کہ ایک ایک کے دو دو نظر آنے لگے۔ ماہر آئی سرجنز کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ اب علاج ممکن نہیں۔ وفات تک بینائی کی یہی کیفیت رہی۔ اس دوران پہلے ان کے بڑے بیٹے کا لندن میں انتقال ہوگیا جو کئی سال پہلے وہاں کا شہری بن چکا تھا۔ اس حادثے کو تو وہ برداشت کرگئے۔ اس کے دو تین برس بعد ان کے چھوٹے بیٹے سلمان بٹ کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ سلمان بٹ بینک آفیسر تھا اور ادبی حلقوں میں جان پہچان بنا رہا تھا کہ بدقسمتی سے جواں مرگ ہوگیا۔ رات کو وہ سکوٹر پر گھر جارہا تھا جین مندر چوک پر سڑک کے بیچوں بیچ کچھ ڈرم پڑے تھے سکوٹر ان سے ٹکرایا اور موت کا باعث بن گیا۔ اس حادثے نے قیوم نظر کو بالکل دل شکستہ کردیا۔ وہ لاہور سے بھی بیزار ہوگئے۔ شاید ان تکلیف دہ واقعات نے انھیں لاہور چھوڑنے پر آمادہ کیا۔ وہ اپنی ایک بیٹی کے پاس کراچی میں رہنے لگے اور وہیں 23 جون 1989ء کو وفات پائی۔ اگلے دن تدفین ان کی وصیت کے مطابق لاہور میں ہوئی۔ ان کا اپنا ہی شعر ہے:
مرحوم اس کو کہتے ہوئے کانپتا ہے دل
کل ذکر جس کا بہرِدعا مسجدوں میں تھا
اس شخص میں کبھی کتنی بھرپور توانائی تھی! جہاں بیٹھتا اس کے قہقہے گونجا کرتے تھے، ہنسی مذاق، طنز، تمسخر، بذلہ سنجی، شعرخوانی، دلکش واقعات۔۔۔ اور آخری چند برسوں میں کتنا دل شکستہ! کتنا اداس! کتنا تنہا! بقولِ اقبال،’کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں‘ (ورنہ۔۔۔)
قیوم نظر نے اردو ادب کی بہت خدمت کی ہے اور پنجابی ادب میں بھی ان کے کام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حلقۂ اربابِ ذوق کے قیام کے فوراً بعد اس تنظیم سے جو لوگ وابستہ ہوئے ان میں قیوم نظر پیش پیش تھے۔ میرا جی سے ان کی بے تکلفی تھی۔ وہ ادب میں نئے نئے تجربات کے امکانات پر غور کرتے تھے، تبادلۂ خیال کرتے تھے اور پھر اپنے اپنے انداز میں معاصر شاعری میں جدت پیدا کرنے کے لیے لکھنے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ان کے دوسرے ساتھیوں میں مختار صدیقی، یوسف ظفر، حفیظ ہوشیار پوری، ضیاء جالندھری وغیرہ تھے۔ ایک زمانے میں حلقۂ اربابِ ذوق کو ترقی پسند تحریک کا مدمقابل سمجھا جاتا تھا۔ تشکیل کے پہلے چند سال تو ان میں کوئی نمایاں فرق نہیں تھا، بعدازاں ترقی پسندوں نے اپنے منشور کو سختی سے نافذ کیا تو حلقے کے وابستگان نے یہ موقف اپنا لیا کہ ادب بنیادی طور پر نظریے کا نام نہیں ہے۔ ادب کو تخلیقی تجربہ ہونا چاہیے خواہ اس میں کسی قسم کے خیالات پیش کیے گئے ہوں، چنانچہ دونوں دبستان متصادم ہوگئے اور عرصے تک رہے۔ قیوم نظر اور ان کے تمام ادبی دوست احباب اسی نقطۂ نظر سے وابستہ رہے۔
قیوم نظر کا سال ولادت 1914ء تھا۔ وہ جب جوان ہوئے تو پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات پوری دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔ یہ عظیم اقتصادی بحران کا دور تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بہت کم ہوتے تھے مگر ان کو بھی بے روزگاری سے برسوں دوچار رہنا پڑ تا تھا۔ یہ سب کچھ فیض، راشد، یوسف ظفر، مختار صدیقی، مجید امجد وغیرہ کو دیکھنا اور بھگتنا پڑا۔ قیوم نظر نے بی اے کیا اور اے جی آفس میں کلرک بن گئے۔ پاکستان بن گیا تو ایم اے اردو کیا اور لیکچرر ہوگئے۔ کئی سال محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے، پھر ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہرِ مضمون کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد پاکستان نیشنل سنٹر لاہور کے ڈائریکٹر بن گئے۔ آخر میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ پنجابی میں صدرِ شعبہ کی حیثیت سے کام کیا۔ یعنی معمولی ملازمتوں سے گز رکر رفتہ رفتہ اعلیٰ عہدوں تک پہنچے۔ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادب و شعر سے ہمیشہ تعلق برقرار رکھا۔ ان کی اولین اور اہم تر حیثیت تو شاعر کی تھی لیکن نثر سے بھی دامن کشاں نہیں رہے۔ تنقید لکھی، خاکہ نگاروں کی طرف بھی التفات کیا اور ڈرامے بھی لکھے۔ کئی کتابیں مرتب کیں جن میں ان کی نصابی کتابیں میرے نزدیک بہت اہم ہیں۔ نصابی کتابوں کو ترتیب دینے میں وہ اپنے رفقاء سے بہت بہتر تھے۔
شاعری میں جدید انداز کے اچھے شاعر تھے۔ موضوعات کی جدت کے ساتھ ہیئت کے تجربات کرتے رہتے تھے۔ شاعری میں انھیں وہ مقام تو حاصل نہ ہوسکا جو ان کے معاصرین میں فیض، راشد اور میرا جی کو نصیب ہوا لیکن حلقۂ اربابِ ذوق کے دیگر شعراء یعنی یوسف ظفر، مختار صدیقی وغیرہ جتنے اہم ضرور سمجھے جاتے تھے۔ اب نصف صدی گزر جانے کے بعد ان سب کے قارئین کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ قیوم نظر نے عمر کے آخری ایک دو برسوں میں اپنی کلیات شاعری ’قلب و نظر کے سلسلے‘ کے نام سے ترتیب دی۔ پبلشر نے انھیں گنتی کی چند کتابیں اعزازی طور پر دی تھیں۔ وہ ایک کتاب مجھے دینے اورینٹل کالج آئے مگر میں کہیں گیا ہوا تھا۔ چنانچہ وہاں کسی کو دے کر چلے گئے، اس پردو سطریں اور میرا نام لکھ کر چھوڑ گئے۔ یہ الفاظ بڑی مشکل سے لکھے ہوئے ہیں اور صاف کانپتے ہاتھوں سے لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ میرے لیے یہ امر باعث ِفخر ہے کہ انھوں نے ان حالات کے باوجود مجھے فراموش نہیں کیا۔
وہ جدید نظمیں تو لکھتے ہی تھے مگر اپنے بعض معاصرین کے برخلاف غزلیں بھی برابر کہتے رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے شاہکار نظمیں تخلیق کیں جن کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ کسی زمانے میں پوری پوری کلاس کو یہ نظمیں یاد ہوتی تھیں جن میں خصوصاً ’بلبل کا بچہ‘ ایسی پُرتاثیر تھی کہ بچوں کے دلوں میں عمر بھر کے لیے بس جاتی تھی۔ اس نظم کو بچوں کی کتابوں میں شامل نہ کرنا ان پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ قیوم نظر کے گیت ، ترانے اور نعتیں بھی ان کی شاعری کے تنوع کا اچھا اظہار ہیں۔
قیوم نظر نے بھرپور زندگی گزاری۔ اردو شاعری میں کبھی وہ ایک بڑا نام تھے۔ بیرون ملک بھی یونیسکو کے سکالر شپ پر گئے جہاں یورپ کے چند ادیبوں اور شاعروں سے تبادلۂ خیال کیا۔ وہ لاہور اور امرتسر دونوں شہروں میں جوان ہوئے اس لیے پنجابی تو ان کی اپنی زبان تھی لیکن زندگی بھر اردو اوڑھنا بچھونا رہی۔ اردو تحریر و تقریر میں اظہار پر یکساں قدرت رکھتے تھے لیکن شاید کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ان کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ بہت سے جدید امریکی اور برطانوی شعراء کی نظموں کے ترجمے کرتے رہتے تھے ۔ والٹ وٹمین کے مشہور شعری مجموعے Leaves of Grass کا عمدہ ترجمہ ’گھاس کی پتیاں‘ کے عنوان سے کیا جو کتابی صورت میں شائع ہوا۔
مجموعی طور پر بڑے ہنس مکھ، دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن تھے۔ انھوں نے بذلہ سنجی سے بہت سے لوگوں کو دشمن بھی بنایا لیکن بہت سے لوگ ان کے محب بھی تھے۔ اگر آخری زندگی میں دل کو پاش پاش کرنے والے صدموں سے دوچار نہ ہوتے تو کہا جاسکتا کہ انھوں نے اچھی زندگی گزاری۔ ان کے مزاج میں اگر لوگوں کو فقرہ بازی سے ناراض کرنے کی عادت نہ ہوتی تو اور زیادہ کامیاب زندگی بسر کرتے مگر انسان کا جو مزاج بن گیا سو بن گیا ۔ زندگی کے آخری چند برسوں میں میں ایک دفعہ ان سے گپ شپ لگا رہا تھا تو انھوں نے کسی مخالف کی تعریف میں ایک دوجملے کہے۔ میں نے کہا، ’سر! آپ اس کی تعریف کررہے ہیں ؟‘ بولے، ’یہ بات اگر میں پچاس سال پہلے نہ سہی بیس سال پہلے سیکھ لیتا تو بہت اچھا رہتا‘۔ (ختم شد)