سورئہ فاتحہ سے شفاء

اللہ سبحانہ وتعالیٰ قرآن حکیم کے متعلق فرماتا ہے کہ قرآن شفاء ہے ۔صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کسی سفر میں تھے ۔ اثنائے سفر عرب کے ایک قبیلہ میں ان کا قیام ہوا۔ انہوں نے وہاں کے لوگوںسے ضیافت اورکھانے پینے کی خواہش کی۔قبیلہ والوں نے ان کو کھانا کھلانے سے انکار کردیا۔ اتفاق سے اسی روز قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔ قبیلہ والوں نے اس کیلئے ہر قسم کا علاج کیا اور اس بارے میں کوئی سعی اٹھانہ رکھی لیکن کسی دوا سے اس کو آرام نہ ہوا‘آخر قبیلہ کے کسی آدمی نے کہا: ان نو وارد آدمیوں کے پاس جائو اوردریافت کرو!ممکن ہے انکے پاس اس کا کچھ علاج ہو‘چنانچہ یہ لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اورکہنے لگے :ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے ‘ہم نے ساری تدبیر کردیکھی مگر کچھ نہ ہوا۔کیاتم میں سے کسی کے پاس اس کا کوئی علاج ہے؟صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے ایک نے کہا: ہاں ! میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں لیکن تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی۔اورباوجود کھاناطلب کرنے کے تم نے کھانا کھلانے سے انکار کردیا‘اس لیے جب تک تم اس کا معاوضہ مقررنہ کروگے ہم قطعاً اس پر اپنا دم نہیں پڑھیں گے۔ چنانچہ بکریوں کا ایک ریوڑ معاوضہ میں طے ہوا۔ اور ایک صحابی رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے گئے اورالحمد للہ رب العالمین یعنی سورئہ فاتحہ پڑھ پڑھ کر اس پر دم کرنا شروع کردیا۔ پھر کیا تھا گو یا گرہ کھل گئی (اور ایسے محسوس ہونے لگا کہ جیسے )اسے کوئی دکھ تھا ہی نہیں ۔اسی وقت وہ اٹھ بیٹھا اوراضطراب وبے چینی اوردل کی بے قراری ختم ہوگئی اورچلنے پھرنے لگ گیا۔اورجس قدر بکریاں معاوضہ میں طے پائی تھیں انکے حوالہ کردی گئیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا:لائواب یہ بکریاں ہم آپس میں بانٹ لیں۔ وہ صحابی ؓ جنہوں نے دم پڑھا تھا کہنے لگے :جب تک بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر اصل واقعہ پیش کرکے رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ نہ لے لیںہم کو نہیں بانٹنا چاہیے۔ آپ ﷺ کے حکم کا ہمیں ضرور انتظار کرنا چاہیے ۔ یہ صحابہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوراصل واقعہ پیش کیا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہیں کہاں سے معلوم ہوا کہ سورئہ فاتحہ دم کا بھی کام دیتی ہے؟اس کے بعد آپ ﷺنے فرمایا:’’تم نے اچھا کیا ۔ بکریاں تقسیم کروتو اس میں میرا حصہ بھی رکھ لینا۔ اسکے بعد رسول اللہ ﷺہنس پڑے۔‘‘غور کرو! یہاں دوا کی تاثیر کس طرح کام کرگئی، مرض اس طرح دفع ہوگیا جیسے کبھی تھا ہی نہیں ۔ (دوائے شافی،ترجمہ الجواب الکافی : محمد ابن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ)