مستقبل کس نے دیکھا ہے، عوام کو فوری ریلیف فراہم کریں!
کسی بھی ملک میں خوشحالی و استحکام کو جانچنے کے لیے جو پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک اہم پیمانہ قوتِ خرید ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حالیہ برسوں میں آبادی کی غالب اکثریت کی قوتِ خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یقینا یہ ہے کہ کورونا وائرس کے باعث بے روزگاری اور کاروباری سرگرمیوں میں تعطل اور فقدان کا جو سلسلہ چلا اس نے ملک بھر میں لوگوں کو معاشی حوالے سے متاثر کیا لیکن اس کے علاوہ مہنگائی بھی ایک ایسا اہم عنصر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ جو جماعت 2018ء میں عوام سے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف بندھ باندھنے کے نعروں کی بنیاد پر مینڈیٹ لے کر ایوانِ اقتدار تک پہنچی تھی وہ اب تو کوئی ایسی مؤثر پالیسی وضع نہیں کرسکی جس کی مدد سے مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پاتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔
وفاقی ادارۂ شماریات کی ہفتہ وار بنیادوں پر اشیاء کی قیمتوں کا جائزہ لینے کے حوالے سے بنائی گئی تازہ رپورٹ کے مطابق رواں ہفتہ کے دوران دالوں، گھی، انڈوں، کیلوں، آلو اور لکڑی کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران 20 اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہواجبکہ رواں ہفتے 8 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی آئی۔ اس سلسلے میں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ جن اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا وہ روزمرہ استعمال کی ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر عام طور پر گھروں میں گزارہ مشکل سے ہوتا ہے۔ ادھر، جمعہ کے روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں اضافہ برقرار رہا اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت فروخت ایک روپے بڑھ گئی جس سے ڈالر کی قیمت فروخت 178روپے سے بڑھ کر 179روپے ہو گئی۔ اسی طرح جمعہ کو ایک تولہ 24 قیراط سونے کی قیمت1200 روپے اضافے سے125200روپے ہوگئی۔ جیولرز کے مطابق، سونے کی ڈیمانڈ بڑھنے سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب، کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ٹیکس کی شرح میں اضافے پر اصرار کیا تھا لیکن ہم نے واضح کردیا کہ ٹیکسز نہیں بڑھائیں گے لیکن کاروباری طبقے کو حاصل بعض استثنیٰ واپس لے لیں گے۔ کچھ سیکٹرز میں ٹیکسز کی شرح کم ہے ان کو بڑھا سکتے ہیں۔ منی بجٹ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ رواں سال مارچ میں ہم نے 700 ارب روپے کے استثنیٰ اور نئے ٹیکس کے نفاذ پر دستخط کیے تھے جس کے بعد 50 کروڑ ڈالر ملے تھے۔ جب میں نے ذمہ داری سنبھالی تو اصرار کیا گیا تھا کہ مزید ٹیکس نہیں لگانے دیں گے۔ ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہے، لہٰذا ٹیکس میں اضافہ نہیں ہوا۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے سے متعلق سوال کے جواب میں مشیر خزانہ نے وضاحت کی کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ کو آئی ایم ایف سے عدم معاہدے اور ڈسکاؤنٹ ریٹ میں کمی سے جوڑا گیا لیکن اب تو معاہدہ ہوگیا ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ مشیر خزانہ نے ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈالر کا حقیقی مؤثر شرح تبادلہ کا ریٹ 165 کے قریب ہونا چاہیے۔ اس وقت روپیہ انڈر ویلیو ہے، اس کی وجہ افواہیں بھی ہیں۔ شوکت ترین نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈالرآٹھ سے نو روپے نیچے آئے گا۔
قبل ازیں، مشیر خزانہ نے سٹاک ایکس چینج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مسئلہ غربت کا نہیں، مہنگائی کا ہے۔ لوئر مڈل کلاس طبقہ پس رہا ہے۔ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا رہے ،نہ ہی ٹیکسوں میں اضافہ ہو گا۔ صرف ٹیکسوں کے استثنیٰ کو ختم کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غربت 1 فیصد کم ہوئی ہے، ریسٹورنٹس میں قطاریں لگی ہوتی ہیں، گاڑیوں کے اتنے آرڈرز ہیں کہ اون پر سیل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹرول پر سارے ٹیکسز ختم کر دیئے ہیں، امریکا نے تیل کی قیمت پر ایکشن لیا، قیمت نیچے آ رہی ہے، ہم تیل کی قیمت میں کمی کا سارا فائدہ عوام کو منتقل کریں گے۔
مشیر خزانہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات پر زیادہ زور ہے اور مستقبل کس نے دیکھا ہے؟ ہر حکومت کے پاس اعداد و شمار کے جادوگروں کی ایک ٹیم ہوتی ہے جو بات کو یوں گھما پھرا کر بیان کرتی ہے کہ عام لوگ یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ جو کچھ کہا جارہا ہے اس میں ان کا فائدہ ہے یا نقصان۔ شوکت ترین نے جب وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری سنبھالی تھی اس وقت یہ مژدہ سنایا گیا تھا کہ ان کے آنے سے معاملات میں بہتری آئے گی اور مہنگائی کا بوجھ کم ہوگا لیکن عملی طور پر اب تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ممکن ہے وہ آنے والے وقت میں ملکی معیشت کی کشتی کو اس منجدھار سے نکال لیں لیکن اس وقت عام آدمی کا مسئلہ میکرو اکنامکس کے الجھیڑے نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر دو وقت کی روٹی کا حصول ہے جو حکومت کے ہر نئے اقدام کے بعد مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے 2018ء کے انتخابات کے دوران عوام سے جو وعدے کیے تھے ان میں سے اب تک ایک بھی پورا نہیں ہوا، اور یہ نوشتۂ دیوار ہے کہ اگر حالات میں جلد بہتری نہ آئی اور حکومت نے عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے فوری طور پر سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکے گی۔