خوش آمدید آصفہ بھٹو زرداری!!!

پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے خوشخبری ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری اپنے سیاسی سفر کا آغاز کر رہی ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ لگ بھگ سال ڈیڑھ سال پہلے انہی صفحات پر آصفہ بھٹو زرداری کے حوالے سے لکھا گیا تھا کہ اگر پنجاب میں کوئی پیپلز پارٹی کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے تو وہ آصفہ بھٹو زرداری ہوں گی۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں سیاسی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر جماعت کے اکابرین ان کے سیاسی سفر کے آغاز کو اچھے انداز فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئے تو صرف پاکستان تحریکِ انصاف ہی نہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے بہت مسائل ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے مسائل تو کچھ اور بھی ہیں لیکن آصفہ بھٹو زرداری پی ٹی آئی کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ گوکہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اس طرف توجہ نہیں دے رہی ہو گی وہ اسے بھی شعبدہ بازی کہہ سکتے ہیں وہ ابتدائی طور پر اسے نظر انداز بھی کریں گے، طنزیہ بیان بازی بھی کریں گے، اسے سندھ میں ناکام طرز حکومت کے طعنے بھی دیں گے لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے بڑے یہ کبھی نہیں سوچیں گے کہ اگر آصفہ بھٹو زرداری سیاسی میدان میں کامیاب ہو گئیں تو اس کا سب سے زیادہ نقصان کسے ہو گا؟؟؟
پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی دوبارہ نظر آنا چاہتی ہے تو یہ صلاحیت صرف اور صرف آصفہ بھٹو زرداری کے پاس ہے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں درپیش مسائل سے نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد ان کی جماعت کو پنجاب میں ایک ایسے چہرے کی ضرورت تھی جو عوام میں مقبول ہو اور یہاں کی سیاسی روایات کے مطابق عوام کے ساتھ بت چیت کر سکے۔ بینظیر بھٹو کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی سوچ کو آگے نہیں بڑھایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پاکستان پیپلز پارٹی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو نے ہمیشہ پنجاب کو عزت دی ہے، پنجاب کے سیاستدانوں کو اہمیت دی ہے، فیصلہ سازی میں پنجاب کو شامل کیا ہے، پنجاب کو لوگوں کو اگلہ صفوں میں رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ پنجاب نے بھی دونوں کو بیپناہ محبت دی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو تو پنجاب کے سیاسی کارکنوں کو ان کے نام سے بلاتے تھے یہی وہ اپنائیت اور محبت تھی جس کی وجہ سے آج بھی پنجاب میں لوگ ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی کو یاد کرتے ہیں۔ ان کے بعد پنجاب کے لوگوں کو یہ اپنائیت اور محبت آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی طرف سے نہیں مل سکی۔
آصف علی زرداری سندھ کے وڈیرے ہیں وہ دوستوں کی سیاست کرتے ہیں، ان کا طرز سیاست عوامی نہیں ہے۔ یہ طرز سیاست ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے طرز سیاست سے مکمل طور پر مختلف ہے۔
حالانکہ مسلم لیگ ق کی حکومت ختم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی نے پانچ سال تک حکومت بھی کی لیکن اس دور حکومت میں نا تو وہ اپنی جماعت کو پنجاب منظم کر سکے نا ہی ایسی کارکردگی دکھا سکے کہ نئے لوگ جماعت کا حصہ بنتے۔ عوامی سیاست سے دوری اور عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی سکڑتی چلی گئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کچھ کوشش کی لیکن انہیں بھی وہ کامیابی نہیں مل سکی۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی توجہ کا مرکز سندھ کی حکومت رہی ہے اور انہوں نے اس مخصوص علاقے سے باہر نکلنے یا اپنی جماعت کو دوبارہ پنجاب میں منظم کرنے کے لیے وہ محنت نہیں کی جس کی ضرورت تھی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کوشش کرتے بھی تو شاید کامیاب نہ ہوتے کیونکہ اس عرصے میں پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنی جگہ بنائی ہے اور پاکستان مسلم لیگ نچلی سطح پر بھی مضبوط ہے۔ ان حالات میں بلاول بھٹو یا ان کے والد کے لیے جگہ حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔
یقیناً سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریکِ انصاف تو اب بھی موجود ہیں تو آصفہ بھٹو زرداری کیسے کامیاب ہو سکتی ہیں۔ چونکہ پی ٹی آئی کی کارکردگی خراب ہے ان کے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی اپنے حلقوں میں عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔ پی ٹی آئی بڑے بڑے عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے لوگ بدظن ہو گئے ہیں، کبھی پیٹرول کا بحران سامنے آتا ہے تو کبھی آٹا اور چینی نایاب ہوتا ہے، کبھی ادرک چھوٹے گوشت کے بھاؤ ملتا ہے تو کبھی لیموں بیف کے بھاؤ مل رہا ہوتا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں مسلسل کمی آ رہی ہے پاکستان پیپلز پارٹی ان حالات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو میاں نواز شریف کی طرف سے ریاستی اداروں کے خلاف بیانیے کے بعد ان کے لیے متحرک سیاسی کردار مشکل ہو گا۔ انہیں پہلے جیسی سپیس ملنا مشکل ہو گا۔ ریاستی اداروں کے مخالف بیانیے اختیار کرنے کے بعد عوامی سطح پر بھی انہیں مزاحمت کا سامنا ہے۔ میاں نواز شریف ملک سے باہر ہیں جب قیادت یا تو جیلوں میں ہے یا پھر عدالتوں کے چکر لگا رہی ہے۔ وہ عوامی مسائل کے بجائے ذاتی مسائل کی سیاست کر رہے ہیں یوں حکمراں جماعت اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے بڑھتے ہوئے مسائل کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کا اچھا موقع ہو گا اور آصفہ بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی سے دور ہوئے لوگوں کی توجہ دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔
پنجاب کی سیاست میں آصفہ بھٹو کو سب سے زیادہ فائدہ یہاں کے سیاسی کلچر کی وجہ سے ہو گا۔ پنجاب میں ہمیشہ خواتین کو سیاسی میدان میں خوش آمدید کہا گیا ہے اس شعبے میں یہاں خواتین کا کردار سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی نسبت بہت مختلف ہے۔ دیگر صوبوں میں بھی خواتین کی عزت اور تکریم کے حوالے سے تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن خواتین کے سیاسی کردار کے حوالے سے خواتین کو جو اہمیت پنجاب نے دی ہے وہ دیگر صوبوں میں نہیں مل سکی۔ یہاں محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کے بعد مریم نواز شریف کی مقبولیت اس کی واضح مثال ہے۔ پنجاب کی یہی وہ سیاسی تاریخ ہے جس کا اضافی فائدہ آصفہ بھٹو زرداری کو مل سکتا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں خواتین کو ہمیشہ خوش آمدید کہا جاتا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو یہاں اپنی سیاست کو زندہ کرنے کے لیے ایسے ہی ایک چہرے کی ضرورت تھی جس میں سیاسی کارکنوں کو اپنے محبوب قائدین کی جھلک بھی نظر آئے۔ آصفہ بھٹو زرداری اس مقصد میں کامیاب ہوتی ہیں تو یقینی طور پر وہ گیم چینجر ثابت ہوں گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی خود کو جمہوریت کی علمبردار بھی کہتی ہے پھر وہ ریاستی اداروں کے ساتھ بھی تعمیری گفتگو کے عمل کا حصہ رہتی ہے یہ ساری چیزیں انہیں مستقبل میں فائدہ دے سکتی ہیں۔ آصفہ بھٹو نوجوانوں کو ساتھ ملا سکتی ہیں انہیں نئے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہو گا، روایتی سیاست کے بجائے عوامی سیاست کو اپنانا ہو گا اپنے والد اور بھائی کے بجائے اپنے نانا اور والدہ کے انداز سیاست کو آگے بڑھانا ہو گا۔ پنجاب میں جو اچھے لوگ اس وقت پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں انہیں ساتھ رکھ کر نئے چہروں کو ساتھ ملا کر سیاسی منظر نامہ بدل سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کا طاقتور ہونا پنجاب کی روایتی سیاست اور مفاد پرست سیاست دانوں کے گھیرے کو توڑنا بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے۔