ہفتہ‘ 12؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 28؍ نومبر 2020ء
شادی پر ساس کی طرف سے دولہا کو کلاشنکوف کا تحفہ
کیا دولہا میاں نے نکاح مسنونہ کے بعد فوری طور پر جہاد کشمیر کے لیے نکلنا تھا یا فلسطین روانہ ہونا تھا کہ ساسو ماں نے اپنے پیارے داماد کو کلاشنکوف کا تحفہ دیا۔ یا پھر انہوں نے نکاح کے بعد فوری طور پر اپنا کاروبار یعنی سڑکوں پر ڈکیتی اور لوٹ مار شروع کرنا تھا تاکہ شادی کے اخراجات پورے ہوں۔ شاید محترمہ اخبارات اور ٹی وی سے دور رہتی ہے ورنہ اگر وہ خبریں پڑھتی اور ٹی وی دیکھتی تو کبھی ایسا نہ کرتی۔ آئے روز گھریلو معاملات پر بے شمار قتل ہوتے ہیں ، ان میں زیادہ تر فائرنگ سے ہی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ خنجر یا گلا گھونٹ کر مارنے کے واقعات اب کم ہو گئے ہیں۔ ریوالور اور پستول سے کام چلایا جانے لگا ہے۔ اب خدا خیر کرے کلاشنکوف خود سسرال والوں نے دولہا کو مہیا کرنا شروع کر دی ہے۔ کیا خبر باقی دولہا حضرات بھی کلاشنکوف ایل ایم جی یا راکٹ لانچر کی سلامی مانگنے لگیں۔ قبائلی علاقوں میں تو عرصہ دراز سے مخالفین پر راکٹ لانچر ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ شہروں میں فی الحال کلاشنکوف کا راج ہے۔ کھلے عام اسلحہ کی نمائش پر پابندی کے باوجود شہروں اور دیہات میں جس طرح اسلحہ کی نمائش ہوتی ہے۔ سرعام فائرنگ ہوتی ہے۔ اس پر قابو نہ پایا جانا حکومت کی ناکامی ہے۔ لوگوں کا کیا وہ تو ذرا موقع ملے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ یہ اسلحہ کی نمائش اسی لیے تو ہوتی ہے کہ دوسروں پر دھاک جمائی جا سکے۔ ایسے لوگوں کو کینڈے میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ خواہ وہ کتنے ہی با اثر کیوں نہ ہوں۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد چڑیا گھر کے ہاتھی کی کمبوڈیا منتقلی۔ صدر نے بھی الوداعی ملاقات کی
جس ملک میں سرکاری خزانے پر لاکھوں سفید ہاتھی پل رہے ہوں وہاں ایک بے زبان جنگلی ہاتھی کو پالنا کتنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کا اندازہ اب ہوا ہے۔ اسلام آبادکے چڑیا گھر میں موجود ہاتھی بھلا ماہانہ کتنے لاکھ روپے کا راشن کھاتا ہو گا کہ یہ خزانے پر بوجھ بن گیا۔ یہ جو سفیدہاتھی ہر جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کروڑوں اربوں کا خزانہ ہر سال چٹ کر جاتے ہیں۔ ان کو کیوں نہ بحری جہازوں میں بھر کر سمندر بردکیا جائے یا افریقہ بھیج دیا جائے تاکہ یہ وہاں بیٹھ کر درختوں کے پتے کھائیں یہ ان کے گناہوں کی سزا ہوگی۔ اسلام آبادچڑیا گھر کا یہ ہاتھی تو ماہانہ خوداتنا کما لیتا تھا کہ اس کے کھانے پینے کے اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔ بچے بڑے سب اسے سونڈ اٹھا کر سلام کرنے پر جو سلامی دیتے تھے وہی اس کی خوراک کے لیے کافی تھی۔ خدا غارت کرے ان کو جنہوں نے وہ سرکاری فنڈبھی کھا لیے جو چڑیا گھر کے جانوروں کے لیے ملتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چڑیا گھر ہاتھی ، شیروں اور کئی نایاب جانوروں سے خالی ہو گئے ہیں۔ جلد ہی اسلام آباد کے چڑیا گھر میں بھی صرف بندر اور طوطے ہی رہ جائیں گے۔ حالانکہ اسلام آباد کے جنگل میں سور، بندر اور طوطا مینا بہت ہیں جو اِدھر اُدھر گند میں منہ مار کر گزارہ کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں صدر مملکت بھی اس ہاتھی سے الوداعی ملاقات کرنے چڑیا گھر آئے۔ بہتر تو یہ تھا کہ وہ ہاتھی کی جگہ خوراک اور فنڈز خوردبردکرنے والوں کو کمبوڈیا بھجواتے۔ بہرحال اب اس ہاتھی کو نئی زندگی نئے دوست اور نیا مہربان جنگل مبارک ہو جہاں کم از کم رزق کی تو کمی نہیں ہو گی اور یہ تنہا بھی نہیں رہے گا۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعظم کا لاہور میں قبضہ مافیا کے خلاف اعلان جنگ
اس اعلان جنگ کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ جنگ شروع ہو چکی ہے ابھی صرف 5 فیصد کام ہوا ہے۔ جلد ہی باقی عمل بھی مکمل ہو گا کسی بھی قبضہ گروپ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو کیونکہ عوام تو کب سے …؎
پیاسی نگاہوں کو تیرا انتظار ہے
آ جا تیری یادمیں جیا بے قرار ہے
کہتے ہوئے ایسے مسیحا کے انتظار میں ہیں۔ اس وقت صرف پنجاب ہی کیا اس وقت پورے ملک میں قبضہ گروپوں نے جو قیامت مچا رکھی ہے۔ اس نے لاکھوںلوگوں کو متاثر کیا ہے۔ یہ بے چارے دل پر پتھر رکھے اپنی قیمتی جائیدادوں کو دوسرے کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ رہے ہیں اور کچھ کہہ یا کر نہیں سکتے۔ اب اگر پنجاب پولیس واقعی وزیر اعظم کے وژن کے مطابق قبضہ گروپوں پر چڑھ دوڑے تو ان ظالموں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ مگر کیا جن قبضہ گروپوں کی سرپرستی خودپولیس افسران کر رہے ہیں یا جن کے سرغنہ پولیس والے ہیں ان پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا یا انہیں پیٹی بند بھائی کہہ کر ان سے رعایت برتی جائے گی۔ اگر آپریشن کرنا ہے تو مکمل کیا جائے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جائے ورنہ یہ کسی نہ کسی شکل میں کہیں سیاستدانوں‘ کہیں افسروں‘ کہیں وردی والوں اور کہیں بااثر افراد کی شکل میں موجود رہے ۔
٭٭٭٭٭
ملتان انتظامیہ کا جلسے کی اجازت دینے سے انکار ، سٹیڈیم میں کھدائی
کرونا سے تحفظ کیلئے پر حکومت کی ہر کوشش کا عوام دل و جان سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ مگر یہ جو ملتان میں بھٹو اور ایوب دور کی یادتازہ کی جا رہی ہے اس کی حمایت کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ اپوزیشن کے جلسے کو روکنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ ایوب خان اور بھٹو کے دور میں ایسے گرائونڈز یا میدانوں میں جہاں اپوزیشن کے جلسے ہونے ہوتے تھے ، پانی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ کرنٹ چھوڑا جاتا تھا۔ اب یہ نئی رسم ایجاد ہوئی ہے کہ پارک یا گرائونڈ کو ہی کھودا جانے لگا ہے۔ یوں ایک خوبصورت گرائونڈ یا پارک کے حسن کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ہتھکنڈے صرف اس لئے استعمال کئے جاتے ہیں کہ اپوزیشن جلسہ نہ کر سکے۔ اب حکومت کے تمام تر اقدامات کے باوجود اپوزیشن والے بضد ہیں کہ کرونا سے طوفان آئے یا قیامت اٹھے ہم جلسہ کر کے رہیں گے۔ اب یہ ضد بازی کیا رنگ لائے گی اس سے سب خوفزدہ ہیں۔ حکومتی ہوں یا اپوزیشن کے۔ جلسے جلوسوں سے کرونا کا جن بوتل سے باہر آ رہا ہے۔ اگر ایک مرتبہ پھر یہ جن بوتل سے باہر آ گیا تو اسے واپس بوتل میں ڈالنا مشکل ہو جائے گا یہ بات سب کو اچھی طرح جان لینی چاہئے۔ کرونا وائرس حکومت یا اپوزیشن نہیں دیکھتا سب پر کاری وار کرتا ہے۔