سعودی عرب اور اسرائیل ، سید سجاد بخاری کاتجزیہ

تین دن پہلے دنیا بھر میں شہہ سرخیا ں گونج اٹھیں کہ سعودیہ کا اسرائیل سے براہ راست رابطہ ہو گیا ہے اور امریکی وزیر خارجہ کی موجودگی میں سعودی شہزادے محمد بن سلیمان نے اپنی ہی سر زمین پر اسرائیلی وزیرخارجہ سے ملاقات کی ہے ، یہ خبر کسی بھونچال سے کم نہیں تھی خبر رساں ایجنسیاں، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا نے ایک طوفان کھڑا کر دیا جس پر سعودی عرب نے وضاحت جاری کردی کہ شہزادہ محمد بن سلیمان کی کوئی ملاقات کسی اسرائیلی عہدے دار سے نہیں ہوئی، سعودی عرب اپنے دعوے میں سو فی صد درست ہو سکتا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ لوگ وضاحت و تردید پر نہ دھیان دیتے ، نہ اسے ماننے کو تیار ہوتے ہیں ، یہ کہنا ہے سید سجاد بخاری کا جن کی زبانی میں نے اردوان اور عمران کا ایک موازنہ ان کالموں میں پیش کیا تھا کہ عالم اسلام کے صرف یہ دو حکمران عمران اوراردوان ایسے ہیں جو کشمیر اور فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں ۔دونوں راہنما کشمیریوں اور فلسطینیوں کو حقوق دیے بغیر بھارت اور اسرائیل کے ساتھ روابط بڑھانے کی مخالفت کرتے ہیں ، ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے تو واضح طور پر کہا کہ ہم اس مسئلے میں قائد اعظم کے حکم کی تابعداری کریں گے جنہوں نے فرمایا تھا کہ اسرائیل پہلے تو فلسطین پر ناجائز قبضہ ختم کرے پھر پاکستان اسے بلا پس و پیش تسلیم کرلے گا ، سید سجاد بخاری کہتے ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر نا جائز قبضہ تو کیا چھوڑا ، مسجد اقصیٰ پر بھی قبضہ جما لیا ۔ غرب اردن ،جولان کی پہاڑیوںںاور صحرا ئے سینا کے ایک بڑے حصے کو بھی اس نے غصب کرلیا اور اس نے فلسطین کے اندر متواتر نئی یہودی بستیاں بھی بسانا شروع کردیں ، سجاد بخاری یہ کہتے ہوئے رو دیے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی تین نسلوں کو تہہ تیغ کیا ہے، ان کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر شام ، لبنان، مراکش اور لیبیا تک کے ملکوں میں جا کرپناہ گزین ہو کر خیمہ بستیوں میں زندگی بسر کریں ، سجاد بخاری نے کہا کہ فلسطینیوں کی دو نسلیں تو انہی خیمہ بستیوں میں پیدا ہوئیں اور وہیں گل سڑ گئیں، ان کی قبروں کا بھی کہیں نشان نہیں ملتا ۔
بد قسمتی کی انتہا ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے قبلہ اول چھن چکا ہے جہاں معراج کی رات حضور خاتم النبیین ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی ، سید سجادبخاری کہتے ہیں کہ اسرائیل کئی مرتبہ مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے یا اسے منہدم کرنے کی مذموم کوششیں کر چکا ہے، وہ جب چاہے فلسطینی مسلمانوں پر مسجد کے دروازے بند کر دیتا ہے ، وہ کسی اشتعال کے بغیر فلسطینیوں کے گھروں میں راکٹ برساتا ہے اور سوئے ہوئے فلسطینی بچوںاور ان کی مائوں کو شہید کر دیتا ہے اور یہ وقت قیامت ہے کہ اسرائیل کے ارد گرد کے خلیجی اور عرب ممالک اسے تسلیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر وہ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا بھی پسند نہیں کرتے، عالم عرب کے شہنشاہوںکو صرف تجارتی مفادات سے غرض ہے مگر وہ فلسطینیوں کا بے دردی سے خون بہانے پر احتجاج کا ایک لفظ بھی زبان پر لانے کو تیار نہیں ہیں ، سجاد بخاری نے کہا کہ یہ عرب حکمران کشمیر کو بھی پس پشت ڈال چکے ہیں اور ان کی نظریں بھارت کی وسیع منڈیوں پر ہیں ۔بخاری صاحب کہتے ہیں کہ اس مایوس کن اور مخدوش صورتحال میں عمران اور اردوان کا وجود غنیمت ہے جو کشمیریوں اور فلسطینیوں کی پشت میں چھرا گھونپنا جرم خیال کرتے ہیں ، عالم اسلام کے دونوں لیڈر یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو کشمیر پر بھی ہمارا وہ دعویٰ ختم ہو جائے گا جسے سلامتی کونسل بھی بہتر برس قبل تسلیم کر چکی ہے ، کشمیر اور فلسطین دونوں مسائل کا حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کی رو سے استصواب اور حق خود ارادیت سے ہونا باقی ہے مگر عالم اسلام کے تیل کی دولت سے مالامال ممالک ان دونوں مسائل کو زندہ درگور کرنا چاہتے ہیں ۔
سید سجاد بخاری نے کہا کہ مسلمان ملک نہ تو دولت کے لحاظ سے اور نہ فوجی قوت کے لحاظ سے اسرائیل اور بھارت سے کمزور ہیں ۔عالم اسلام میں پاکستان واحد مسلم ایٹمی طاقت ہے اور تیل اور معدنیات کی دولت سے تو درجنوں اسلامی ممالک مالامال ہیں۔اسرائیل کم از کم تین مرتبہ پاکستان کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کر چکا ہے، تینوں دفعہ اس نے پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں منہ کی کھائی ہے اور ابھی تو پاکستان نے یہ راز کھولا ہی نہیں کہ گزشتہ سال ستائیس فروری کو جو دو ہوا باز پکڑے گئے تھے ان میں سے ایک ابھی نندن تھا اور دوسرا کون تھا ، یہ بات زبان زدعام ہے کہ دوسرا قیدی ہواباز اسرائیل سے تعلق رکھتا ہے ۔
اس ضمن میں ہمیں ایران کی طاقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ، سید سجاد بخاری کہتے ہیں کہ ایران وہ واحد ملک ہے جس نے مسجد اقصیٰ کی بازیابی کے لیے باضابطہ طور پر القدس بریگیڈ منظم کر رکھا ہے اور اس کے سپاہ سالار جنرل سلیمانی کو مبینہ طور پر عراق کے ایک ہوائی اڈے پر میزائل حملے سے شہید کر دیا گیا۔ بخاری صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی قوت اور ایران کی دفاعی قوت، ملائیشیا کی اخلاقی قوت اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی عالمی حمائت سے فلسطین اور کشمیر کے دونوں سنگین مسئلے حل کروائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ اسرائیل کے ارد گرد بسنے والے عرب حکمران گھٹنے نہ ٹیک دیں ، اس طرح اسرائیل کو مزید شہہ ملے گی اور وہ گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے خدا نخواستہ، خاکم بدہن، مدینہ منورہ کو گریٹر اسرائیل کے مجوزہ اور مبینہ نقشے میں شامل کرلے گا ۔ ایسا ہوا تو مسلمانوں کو چلو بھر پانی بھی نصیب نہیں ہو گا جس میں وہ شرم کے مارے ناک ڈبو سکیں۔
٭…٭…٭