پی پی پی کے قیام کی کہانی

پی پی پی کے قیام کی کہانی بڑی دلچسپ اور حیران کن ہے۔ 1967ء میں جنرل ایوب خان پاکستان کے مرد آہن حکمران بن چکے تھے۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ ان کے دور حکومت میں پی پی پی کے نام سے ایک ایسی سیاسی جماعت وجود میں آجائے گی جو ذوالفقارعلی بھٹو کو ایک متبادل لیڈر کے طور پر کامیاب کرانے کا سبب بن جائے گی۔ ساٹھ کی دہائی انقلابات کی دہائی تھی۔ پاکستان کے نوجوان خاص طور پر طلبائ سوشلسٹ انقلابات سے بڑے متاثر تھے اور وہ عظیم انقلابی لیڈروں ماؤزے تنگ اور لینن کی کتابیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں صنعتی اور معاشی ترقی ہوئی البتہ وہ معیشت کو منصفانہ بنانے سے قاصر رہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں 22 خاندانوں کے پاس کم و بیش 95 فیصد قومی دولت جمع ہوگئی۔ پاکستان کے محنت کش غریب اور مفلس عوام بنیادی حقوق سے محروم ہوگئے اور ان کی زندگیاں تلخ ہوگئیں۔ پاکستان کے نوجوان ذوالفقارعلی بھٹو کی چین دوستی کی بنا پر بڑے متاثر تھے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخی اور یادگار خطاب سے جس میں انہوں نے بھارت کو بڑی بہادری اور جرأت سے للکارا تھا بڑے متاثر ہوئے۔ جب تاشقندکے مسئلہ پر ذوالفقار علی بھٹو کے جنرل ایوب خان کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے اور ان کو امریکی دباؤ کے تحت وزارت خارجہ سے فارغ کردیا گیا تو پاکستان کے نوجوانوں نے ان کی خوشبو کی طرح پذیرائی کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ وہ پاکستان کے مقبول لیڈر ہیں اور عوام کو جنرل ایوب خان کے مقابلے میں متبادل لیڈر شپ فراہم کر سکتے ہیں مگر وہ نئی سیاسی جماعت کے بارے میں واضح نہیں تھے۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ نیشنل عوامی پارٹی یا پاکستان مسلم لیگ کونسل میں ان کو کوئی اہم مرکزی ذمہ داری مل جائے تو وہ اس میں شامل ہو جائیں۔ ان جماعتوں کے قائدین ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت کا درست ادراک نہ کر سکے اور انہیں مرکزی عہدہ دینے کی بجائے صوبائی عہدے کی پیشکش کی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کر دیا۔ پاکستان کے نظریاتی انقلابی اور عوامی دانشور نئی جماعت کے بارے میں غور و فکر کر رہے تھے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ کیا اور وہ نئی جماعت کے قیام پر راضی ہوگئے۔
پی پی پی کے منشور کے بنیادی اصول سوشلسٹ دانشور جے اے رحیم نے تیار کیے اور بھٹو صاحب پر زور دیا کہ وہ ان بنیادی اصولوں پر ہمیشہ ثابت قدم رہیں۔ پی پی پی کا تاسیسی کنونشن ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کی رہائشگاہ پر ہوا جو 30 نومبر 1967ء اور یکم دسمبر 1967ء دو دن جاری رہا۔ اس تاسیسی اجلاس میں پی پی پی کے نام کی منظوری دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ اسلام ہمارا دین ہے جمہوریت ہماری سیاست ہے سوشلزم ہماری معیشت ہے طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ کنونشن میں ان چار بنیادی اصولوں کی منظوری دی گئی۔ اس کنوینشن میں دس بنیادی دستاویزات کی منظوری دی گئی اور حالات کے مطابق پچیس قراردادیں منظور کی گئیں جن میں عوام کے معیار زندگی میں اضافہ اقلیتوں اور ان کے حقوق نوکر شاہی کا خاتمہ کے بارے میں قراردادیں شامل تھیں۔ جنرل ایوب خان کے خوف کی وجہ سے پاکستان کے میڈیا نے پی پی پی کی خبروں پر کوئی توجہ نہ دی یہ عوامی جماعت بڑی تیزی کے ساتھ زبانی پروپیگنڈہ کی بنیاد پر محروم عوام خاص طور پر مزدور کسان اور طلباء میں مقبول ہو گئی۔ پاکستان کی اشرافیہ نے اس عوامی جماعت کو کوئی اہمیت نہ دی ان کو عوام کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ پی پی پی پانی کا ایک بلبلہ ثابت ہوگی اور روایتی سیاسی جماعتوں کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان طلباء مزدور اور کسان انقلاب کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو چکے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے ذوالفقار علی بھٹو نے مقبول عوامی لیڈر ہونے انقلابی منشور اور غریب عوام کے اتحاد کے باوجود انقلاب کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اتخابات کا راستہ اختیار کیا اور سوشلسٹ انقلاب کا تاریخی اور سنہری موقع گنوا دیا۔ 1970ء کے انتخابات میں غریب عوام نے پرانے روایتی جاگیردار سیاستدانوں کے برج اُلٹ دیئے۔ حیران کن انتخابی سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کے محروم اور غریب عوام انقلاب کے لئے پوری طرح تیار ہو چکے تھے مگر چونکہ پی پی پی نے انتخابی راستہ اختیار کیا چنانچہ عوام نے انتخابات میں انقلابی جذبے کے ساتھ شرکت کی اور تین سال کے مختصر عرصے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کامیاب قرار دیا ، پاکستان پیپلزپارٹی مرکز پنجاب اور سندھ میں حکومت بنانے کے قابل ہو گئی۔ یہ حیران کن انتخابی کامیابی بے روزگار نوجوانوں انقلابیوں طلباء مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں اور غریب عوام کی وجہ سے ممکن ہوسکی۔ اگر ذوالفقارعلی بھٹو انقلاب پر آمادہ ہوجاتے تو پاکستان سے سرمایہ داروں جاگیرداروں اور اجارہ داروں کا صفایا ہو جاتا اور پاکستان کی سیاست انقلابی نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوجاتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی اس تاریخی غلطی کا احساس موت کی کوٹھڑی میں ہوا جس کو انہوں نے اپنی آخری کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں تسلیم کیا اور کہا کہ انہوں نے پاکستان کے مختلف طبقات کو متحد کرکے پاکستان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی مگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی غلطی تھی اور پاکستان کے قومی اور عوامی مسائل اس وقت تک حل نہیں کئے جاسکتے، جب تک کہ طبقاتی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی ریاست پر عوام کی بالا دستی قائم نہیں ہو جاتی۔ پی پی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس کے کارکنوں نے جمہوریت کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
جب پی پی پی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں آئی تو انہوں نے پی پی پی کے بنیادی نظریے سے انحراف کرتے ہوئے پی پی پی کو عوام کی جماعت بنانے کی بجائے اشرافیہ کی جماعت بنا دیا۔ جنرل ضیائ الحق نے اپنے طویل آمرانہ دور میں پی پی پی کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر اسے کامیابی نہ ہو سکی جب آصف علی زرداری پی پی پی کے بنیادی انقلابی نظریاتی اور عوامی پروگرام سے انحراف کیا تو پی پی پی قومی شناخت کھو بیٹھی اور وہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے عوامی سطح پر اپنی قیادت کو تسلیم کروا لیا ہے مگر جب تک وہ آصف علی زرداری کی سیاست کو ترک کرکے اپنے عظیم نانا کی عوامی سیاست کی جانب رجوع نہیں کرتے اس وقت تک پی پی پی کا قومی سطح پر پر مقبول ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پی پی پی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح سٹیٹس کو کی حامی بنتی جا رہی ہے۔ پی پی پی کا ماضی شاندار اور یادگار روایات کا حامل ہے۔ آج بھی اگر پی پی پی کو مفادات کی بجائے نظریات کی بنیاد پر چلانے کا فیصلہ کرلیا جائے تو اس کا سیاسی مستقبل روشن ہو سکتا ہے اور وہ کھویا ہوا سیاسی مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔