اسلام آباد: چہف جسٹس آف پاکستان نے بتایا کہ جنرل ریٹائرڈ کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق نوٹیفکیشن میں نہیں لکھا کہ توسیع کس نے دی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کرنے پر راحیل شریف اور اشفاق پرویزکیانی کی دستاویز پیش کی گئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹیفکیشن تو وہ دستاویز ہوتا ہے جو غلطیوں سے پاک ہونا چاہیے جن لوگوں نے ملک کی خدمت کی وہ ہمارے لیے محترم ہیں لیکن آئین اورقانون سب سے مقدم ہے۔
عدالت نے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی پنشن سمیت دیگر تفصیلات بھی طلب کی ہیں جب کہ جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کی دستاویزات بھی طلب کی گئی ہیں۔
اٹارنی جنرل انورمنصورخان نے عدالت کو بتایا کہ دستاویزات کچھ دیر میں پہنچ جائیں گی۔ انہوں نے بینچ کو آگاہ کیا کہ آرٹیکل 243 کےتحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کردی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے؟ حکومتی وکیل نے بتایا کہ نئی تعیناتی آرٹیکل 243 ون بی کے تحت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے ہمیں بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی۔بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اپنا بوجھ خود اٹھائیں، ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، آرمی چیف کا عہدہ آئینی عہدہ ہے، اس عہدے کو پر کرنا ہے تو قاعدے اورضابطے کے تحت کیا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ نہیں دینا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دے کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کندھا استعمال کیا جارہا ہے، ہم کبھی بھی مشکل نہیں رہے۔ہم ہمیشہ آئین اور قانون کی پابندی کرنے والے رہے ہیں۔جسٹس منصورعلی شاہ نے اعتراض کیا کہ عدالت میں جو سمری پیش کی گئی ہے اس میں تنخواہ اورمراعات کا ذکر نہیں۔ اس معاملے کو دیکھنا ہوگا۔
تین رکنی بینچ کے سربراہ نےاٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوے کہا آپ نے سمری میں 3 سال مدت ملازمت لکھ دی ہے، اگر بہت اچھا بندہ مل جائے تو کیا اس کی مدت ملازمت میں ایسے ہی لکھیں گے۔ جسٹس منصور نے اعتراض اٹھایا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اورجسٹس مظرعالم میاں خیل بھی بینچ میں شامل ہیں۔ عدالت نے حکومت کو قانونی پیچیدگیاں دور کرنے کے لیے آج تک کی مہلت دی تھی۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے ہیں جب کہ پاکستان بار کونسل نے فروغ نسیم کا وکالت نامہ بھی بحال کردیا ہے۔دوسرے دن کی سماعت میں حکومت کے وکیل منصورعلی خان نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے، اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جاسکے تو دو ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے آرٹیکل 255 جس پر آپ انحصار کررہے ہیں وہ تو صرف افسران کے لیے ہے۔ جس میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، یہ آرٹیکل تو صرف افسران سے متعلق ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر جنگ ہو رہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جا سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال چیف کا ہے، جنرل کا نہیں۔ 243 کے تحت وزیراعظم کے پاس تعیناتی کا اختیار ہے لیکن ہم نے یہاں مدت کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ایک ریٹائرڈ فوجی افس کو آرمی چیف مقرر کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے قانون کو دیکھیں گے، ہمارے سامنے شخصیت نہیں قانون اہم ہے۔پہلے دن کی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر نے 19 اگست کو توسیع کی منظوری دی تو 21 اگست کو وزیراعظم نے کیسے منظوری دے دی؟ سمجھ نہیں آ رہا کہ صدر کی منظوری کے بعد وزیراعظم نے دوبارہ کیوں منظوری دی۔