ربیع الاول اور انقلاب محمد یﷺ
چار سو اندھیرا چھایا ہواتھا ،ظلم و جبر نے اپنے منحوس پنجے معاشرے میں گاڑھے ہوئے تھے خاندان اور پورا معاشر اٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا انسانیت زوال اور انحطاط کی طرف سرک رہی تھی ماں ،بہن اور بیٹی کے رشتوں کو پامال کیا جارہاتھا بیت اللہ میں 360بت رکھ کر اپنی بگٹری سنوارنے کے لیے قدم بوسی کی جاتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ضلالت اور گمراہی میں بھٹکے ہوئوں کے لیے ہدایت کی منور راہیںکھولنے کا فیصلہ کیا اور بارہ ربیع الاول کی پُرنور رات کو اپنی رحمتوں کی لامتناہی وسعتوں کے ساتھ اپنے پیارے محبوب کو دنیا میں بھیجا پھر تو بس انسانی تہذیب کے قرینے ہی تبدیل ہوگئے۔
گھپ اندھیروں سے روشنی نے اڑان بھر ی اور آنا ًفاناً پورے عالم میں نور ہی نور جگمگانے لگا شکستہ حال اور لاچار لوگوں کو سہارا ملا یتیموں کا اکیلا پن ختم ہو ا ۔وہ پیارانام محمد ﷺ جس کی برکتیں لامتناہی اور جس کی ذکر کی رفعتیںبے شمار ہیں۔ لاکھوں درودو سلام اس صاحب لولاک ﷺ پرجس کا امتی ہونا ہمارے لیے خوش قسمتی کی نشانی ہے۔ یہی میر ا توشہ آخرت ہے اور یہی میرے پاس جنت کی کلیہ ہے 12ربیع الاول کا دن اپنے اند ر محبت ،شفقت،رحمدلی اور اخوت کا ایسا جذبہ لے کر آتا ہے کہ بغض،عداوت،شکوک وشبہات اور نفرتوں کے سارے بادل آنکھ جھپکتے ہی جھڑجاتے ہیں رسول ﷺ کے اسوہ حسنہ اور تعلیمات پر عمل کرنے سے جھونپڑیوں میں رہنے والوں نے نصف دنیا پر حکومت کی آپ ﷺ کی آمد سے ظلم و کفر کے میدانوں میں زلزلہ بپا ہوا ۔قیصر و کسر یٰ کے محلات لرزاٹھے اندھیری راتوں کے ٹکٹروں کی طرح چھائے سیاہ فتنے زائل ہوگئے رحمت دوعالم ﷺکی آمد سے پوری فضا اس قدر معطرہوئی کہ عرب و عجم جگمگااٹھا۔ شاعر نے اس منظر کویوں بیان کیا ہے ۔
حضور ﷺ آئے تو سر آفر ینش پاگئی دنیا
اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آگئی دنیا
بجھے چہروں کا زنگ اتراـ،ستے چہروں پے نور آیا
حضور ﷺ آئے تو انسان کو جینے کا شعور آیا
اللہ تبارک و تعالیٰ نے پوری کائنات پر عموماًاور اہل ایمان پر خصوصا یہ عظیم احسان فرمایا کے رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ کو نبی آخرالزماں اور تاج دارختم نبوت کا اعلیٰ منصب عطا فرما کر وہ تمام صفات اور کمالات عطا فرمائے جو عبدیت و بشریت میں بدرجۂ اُتم موجودہو سکتے تھے الوہیت ومعبودیت کے بعد بس اعلیٰ ترین مقام سرور کونین رحمت دارین حضرت محمد ﷺ ہی کا ہے جیسا کہ خوب کہا گیا ْ ْ بعداز خدا بزرگ تو ئی قصہ مختصر ٗ ٗ اللہ تعالیٰ نے انسان پر اور اہل دنیاپر بے شمار احسانات کیے اور بے شمار نعمتوںسے نوازا ۔ ہمیں ایسی ایسی نعمتیں عطا کیں جن کا ہم شکر بھی ادا نہیں کر سکتے اتنی نعمتیں دینے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے احسانات نہیں جتائے مگر جب باری آئی آمنہ کے لال ﷺ کی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا والوںکو اپنا احسان جتلایا کہ ْْ ْ ْْْْْْ ْ ہم نے تم کو اپنا محبوب ﷺ دے کر تم پر احسان عظیم کیا ہے ٗ ٗ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کی آمد ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے آپ ﷺ تو وجۂ تخلیق کائنات ہیں کیونکہ حدیث قدسی میں آیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے محبوب ﷺ اگر میں نے آپ ﷺ کواس دنیا میں مبعوث نہ کر نا ہوتا تو میں اپنی ربوبیت کو بھی ظاہر نہ کرتا حضور ﷺ کی آمد کی خوشی میں ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے کیونکہ یہ ہم پرایک ایساعظیم احسان ہے جسں کا کوئی شمار بھی نہیں بلاشبہ آج پھر عالم انسانی پر وہی مردگی اوروہی مایوسی چھائی ہوئی ہے جو زمانہ جاہلیت کا خاصہ تھی خوف اور دہشت کے سائے ہیں۔ دل کثافتوں سے آلودہ ہیں۔ ظلم کا ہمہ گیر تسلط ہے۔
امت واحد کی بجائے گروہوں ٗ فرقوں اور جماعتوں میں بٹ چکی ہے ۔ ہر فرقہ اپنے آپ کو ٹھیک اور دوسرے فرقے کو کافر اور مشرک تصور کرنے لگا ہے ۔ خدا پرستی کے خوبصورت نظریے پر دولت پرستی ٗ شہوت پرستی ٗ اقتدارپرستی اور شخصیت پرستی کے پردے ڈال دیئے گئے ہیں ۔یہود ونصاریٰ سے محبت اور اہل ایمان سے اجنبیت اور دوری عام ہو گئی ہے۔ اس ظلم اور مایوسی ٗ کثافت اور غلاظت ٗ انتشار اور افتراق کا علاج صرف تعلیمات نبوی ﷺ پر دل و جان سے عمل کرنے میں ہے ۔بیماریاں وہی ہیں تو علاج بھی وہی ہو گا مایوسی کو امید میں ٗافتراق کو اتحاد میں ٗ مغلوبیت کو غلبہ میں اور ضعیفی کو طاقت میں بدلنے کے لیے ہمیں حضوراکرم ﷺ کے اسی انقلابی منشور کو اپنانا ہو گا جس کی بدولت آپ ﷺ نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے انقلاب بپا کیا تھا کیو نکہ آپ ﷺ تو ذہنی، فکری ،ایمانی ،اخلاقی عا لمگیر انقلاب کے داعی و قائد ہیں ۔