مجھے یاد ہے کہ میں کراچی پہلی مرتبہ 1960میں جب پنجاب یونےورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کا صدر تھا تو طلبہ کا وفد لےکر آیاتھا اور ہم نے چند دن کراچی میں قیام کیا تھا۔ اس کے اگلے سال 1961ءمیں جب یوبی ایل میں ملازمت کی تو ٹرےننگ کےلئے ایک سال کےلئے شہر قائد میں مقیم رہا۔ اس وقت کراچی ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ ناظم آباد ابھی بن رہا تھا ۔ ڈےفنس سو سائٹی کا کوئی نام نشان نہیں تھا۔ کلفٹن پر پہنچ کر سمندر شروع ہوجاتا تھا ،پی ای سی ایچ ایس ہا ﺅسنگ سوسائٹی بھی زیر تعمیر تھی۔ طارق روڈ پر چند دکانیں تھی ۔ اس چوک میں کیفے لبرٹی تھا جہاں پر ہم اکثر مچھلی کھانے جاتے تھے ۔ آبادی بھی بہت کم تھی، چند کا ریں چلتی نظر آتی تھیں، بسیں بھی کم تھیں اور لوگوں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتاتھا۔ سب سے پو ش ایریا ایلفی سٹریٹ تھا جہاں پر افسر لوگ سےر کےلئے آ یا کر تے تھے اور ساتھ کچھ خرید وفروخت بھی کرلیتے تھے۔ ایک شیزان کا چھوٹا سا کیفے AMPUSکے نام سے تھا جہاں پر ہم چائے یا کافی پیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ میں میٹرو پول ہوٹل تھا۔ یا پھر Beach Luxuryہوٹل تھا ۔ اس کے علاوہ ”بندو خان “ بندر روڈ پر اور کیفی ڈی خان تھے جہاں پر معیاری کھانا ملتا تھا لیکن سستا سماں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ Beach Luxury ہوٹل میں ” بوفے بنچ “ ہم 6روپےہ میں کھایا کرتے تھے۔ پیسہ میں برکت بھی تھی اور بہت سستا زمانہ تھا۔ ہم مٹینی شو Lyricسےنما جو نیا نیا بنا تھا۔ اس میں اعلیٰ کلاس میں بیٹھ کر سینما دیکھنا 5-4روپے میں تھا۔ مجھے یہ بھییا دہے کہ میں نے یوبی ایل بطور گریڈ IIآفیسر جوائن کیا تھا اور اس وقت میری ٹوٹل تنخواہ Rs1000روپے کے قریب تھی اور میں نے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں ایک کمرہ 90روپے ماہانہ پر لیا ہوا تھا۔ ٹیکسی اور رکشہ میں سوسائٹی سے میکلورڈ روڈ روزانہ جایا کرتے تھے۔ ٹیکسی کاایک طرف کا کرایہ 5روپے اور رکشہ کا 2روپے ہوتا تھا۔ اچھے ہوٹلوں میں لنچ اور ڈنر روزانہ کرنا اور تنخواہ ختم نہیں ہوتی تھی۔ جبکہ ہر ماہ کچھ رقم بچ جاتی تھی۔ ان دنوں لوگوں کی کمائی حق حلال کی ہوتی تھی اور اس میں بڑی برکت تھی۔
ان دنوں رات کو 2 بجے کراچی میں دن چڑھتا تھا اور کراچی کی کیا رونقیں تھیں ۔ وہ میں بیان نہیں کرسکتا، کسی قسم کا کوئی خطرہ ، چوری ، ڈاکہ کا نام نہی سنا تھا۔ عورتیں بھی رات کو اگر باہر نکلیں تو ان کی طرف کوئی دیکھتا نہیں تھا، ان کو اپنی بہن یا ماں ( والد ہ محترمہ ) کا درجہ دیا جاتا تھا۔ اونچی آواز میں بولنا بھی ایک جرم سمجھا جاتا تھی۔ کسی بنک میں فراڈ کا لفظ گالی سمجھا جاتا تھا اور کسی قسم کے فراڈ ، چوری ، ڈاکہ کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا۔ زبان پر سودے بازی ہوتی تھی۔ اور کسی قسم کا ہےر پھیر نہیں تھا۔ کاروبار میں کراچی بند رگا ہ پر آنے والے بحری جہازوں کے سامان کا زبانی سودا ہوتا تھا۔ اور رقم کی ادائےگی فوراً ہوتی تھی۔ کوئی زبانی سودا کرکے مکر نہیں جاتا تھا۔ کسی قسم کی دونمبرکی چےز کا کاروبار نہیں ہوتا تھا۔ اصلی اور خالص مال مناسب قیمت میں خریدا اور بیچا جاتا تھا ۔ بڑے چھوٹے کا ادب اور احترام ہوتا تھا۔ قتل کے نام سے کراچی والے ناواقف تھے۔ہر کلاس کے لوگ ایک ہی محلہ میں آباد تھے۔ سندھی ، بلوچی ، پٹھان ، پنجابی ، اردو بولنے والے آپس میں اکثر اوقات رشتے بھی طے ہوجاتے تھے اور چونکہ سب پاکستانی تھے ، اس لئے خوشی وخرم زندگی بسر ہوتی تھی بلکہ ایک دوسرے کی مدد کا بھی جذبہ تھا اور خوشی اور غمی میں برابر کے شریک ہوتے تھے۔ آپس میں خو شی سے ملتے تھے اور آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا۔ کراچی میں کوئی پانی کا قلت نہیں تھی۔ صاف ستھرا چھوٹا سا شہرتھا۔ سب طبقوں کی آپس میں ہم آہنگی تھی۔ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا۔ پےار اور مروت تھی۔ اپنے اپنے گھر ہر کوئی خوش تھا۔ ےہ تصویر میں نے جو 1961کی کھینچی ہے، اس میں مزید اچھی باتوں کا اضافہ ہوسکتا ہے اور اگر میں لکھتا رہوں تو شائد کبھی ختم نہ ہوں۔
میرا قلم میرا ضمیر میرا دل ودماغ اجازت نہیں دیتا ، میں کچھ لکھ سکوں ، کیا لکھوں ، کس طرح لکھوں ، کس کی مخاطب کروں ، جہاں پر حس ہی ختم ہوجائے ۔ وہاں قلم لکھنے سے قاصر ہے ۔
1961ءکے بعد میں 1980ءمیں دوبارہ میں چیف آف ہیومن ریسورس ای وی پی کراچی میں آیا۔اور 1980ءسے 1997ءتک بنک میں بطور ممبر بورڈ اور ممبر پاکستان بنکنگ کونسل ریٹائر ہوا ۔ اور 1980ءسے 2012ئ،32سال سے کراچی میں مقیم ہوں ۔ ان 32سالو ں میں بڑے ردوبدل دیکھے۔ میں ان تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ہوں نہ ہی میرا ےہ مقصد ہے لیکن ےہ اےک محب وطب پاکستانی کی آواز ہے جوکہ ” کلمہ حق “ ہمیشہ کہتی ہے ۔ ( درد لکھتی رہے گی۔ خدارا ایک مسلمان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ یہ درس ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں اور اب یہ درس اپنے بچوں کو دیتے ہیں ہر روز 20-15پاکستانی مسلم بھائیوں کا قتل پچھلے 15سالوں سے ہورہاہے ۔ دو موٹر سائیکلوں پر چار سوار نمودار ہوتے ہیں اور اکثر اوقات ایک گاڑی کا بھی کور ہوتا ہے وہ اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے بعد ہر روز بغےر گرفت میں آئے کام کرکے چلے جاتے ہیں اور کسی کو علم نہیں ہے کہ یہ کون لوگ ہیں ۔ پچھلے 15سال سے ہر روز ےہ قتل عام کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور کوئی ایجنسی ان قاتلوں کو تعاقب کرکے ان کو گرفتار نہیں کرسکی ۔ قاتل آئے قتل کرکے اپنا کام کرکے خیرو عافیت واپس اپنے گھر چلے گئے۔
” یہ سوال ہے جس کا جواب چاہئے‘؟
ایک وہ بھی وقت تھا۔ کہ جس میں خلیفہ وقت کو یہ فکر ہوتی تھی کہ اگر ملک میں ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو خلیفہ وقت خدا کو کیا جواب دینگے۔ یہ سوال کراچی اور پاکستان کے عوام اپنی موجودہ قیادت سے کرتے ہیں کہ اس کا جواب دیں ورنہ اﷲ کی ذات بڑی بے نیاز ہے لیکن جب وہ حرکت میں آتی ہے تو مکمل صفائی کردیتی ہے اور باطن کانام ونشان مٹ جاتا ہے ۔
کراچی میں اب بھتہ خو ری ، اغوابرائے تاوان ، گاڑیوں کو گن پوائنٹ پر چھین لینا ، اور اب تو چوراہوں پر گاڑی میں بیٹھے لوگوں سے موبائل فون ، گھڑی اور پرس اور عورتوں سے جو بھی زےور پہنا ہے وہ چھےن کر لی جانا ایک عام معمول بن چکا ہے میرے خیال میں شاید ہی کوئی کراچی کا مقیم اس غنڈہ گردی سے بچا ہوگا ۔ پولےس ، رینجر کی کارکردگی زیرو ہے بلکہ پولےس والے اس سارے کاروبار میں خود شریک ہیں اب تو بیک کا گارڈ بھی ڈاکو بنا ہوا ہے اور وہ آئے دن ڈکیتیوں میں شامل پایا جاتاہے کراچی میں پچھلے 15سال سے جو خون کی ہولی کھیلی جاری ہی یہ کیسے ممکن نہیں کہ خفیہ ایجنسےوں کو یا گورنمنٹ کو ان قاتلو ںکا علم نہ ہو۔ اور اتنے برسوں سے کسی قاتل کا نہ پکڑے جانا یہ ثابت کرتا ہے ۔ کہ گورنمنٹ ہاتھ ڈالتے ہوئے ان سے ڈرتی ہے ۔ اور کسی مصلحت کی خاطر ان قوم کے قاتلوں کو وہ قانونی گرفت میں لےکر ان کو عبرتناک سزا نہیں دے رہی ہے اور وہ اس جرم میں شامل ہے اور عوام کو جواب دہ ہے ۔ہم سب کا پیار ا کراچی جل رہا ہے ۔ فےکٹرےوں والے اپنے کاروبار بند کرکے دوسرے ملکوں مےں شفٹ ہوگئے ہےں ان حالات مےں کوئی باہر کی پارٹی کراچی مےں آنے کو تےار نہےں ہے ۔ جس سے بے روز گاری مےں اضا فہ ہورہاہے جو دوکان دار ، فےکٹری والا بھتہ نہےں دےتا اس کی دوکان ، فےکٹری کو آگ لگا دی جاتی ہے ےا اس کو قتل ےا زخمی کردیا جاتا ہے یہ سزا ہے جو بھتہ نہ دے ۔ اب ےہ وبا بھتہ خوری کی گھروں سے بھی وصول کرنا شروع کردی ہے کہ ہر مہےنہ کچھ مخصوص رقم جےسے بجلی کا بل وغےرہ ادا کےا جاتا ہے ۔بھتہ کی طے شدہ رقم ہر گھر سے وصول کی جارہی ہے جو نہ دے اس کی سزا اسکو بھگتنا پڑتی ہے ۔
اب اس خوفناک مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے ۔ بلاتفریق سرجیکل آپریشن کیونکہ جب کینسر کا عارفہ بڑھ جائے تو اس کو جڑ سے کاٹنا ہی پڑتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ سے دلی دعا کہ ہمارے پیارے کراچی شہر کی پرانی روشنیاں ، رونقیں واپس آئیں ۔ اور یہ ہمارا” منی پاکستان “ پرانا خوشحال کراچی بن جائے امن کا گہوارہ بن جائے۔
٭............٭............٭
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024