
فہمیدہ کوثر
اٹھائیس مئی کادن پاکستان میں یوم تشکراوریوم تکبیر کے طورپرمنایاجاتاہے۔اس دن پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے یہ منوایاکہ پاکستان بھی دنیاکی ایٹمی طاقت ہے۔ بھارت نے اٹھارہ مئی انیس سوچوہتر کو ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان پر اپنے عزائم ظاہر کردئیے تھے۔ پاکستان کو کمزور کرنا اسکی خارجہ پالیسی میں ہے۔ اپنی ہزار سالہ محکومیت کا بدلہ لینے کے لیے جہاں سازشیں کرتا رہاوہاں اپنی بالادستی قائم کر نے کیلئے پاکستان پرپے در پے وارکیے۔ کشمیر منادر اور حیدرآباد کی ریاستوں پرقبضہ کیا 1965 ء کی جنگ میں لاہور پرحملے کاارادہ کرکے لاہور جم خانے میں ناشتے کا پروگرام بنایا۔ بھارت کا ایٹمی دھماکہ در حقیقت پاکستان پر عسکری اورفوجی دبائو بڑھانے کے برابر تھا اس پرطرہ یہ کہ امریکہ نے اس ایٹمی دھماکے کے تناظر میں پاکستان کی سالمیت کوسمجھنے کی کوشش ہی نہ کی۔ بھارت کے ایٹمی دھماکے پرجناب ذوالفقارعلی بھٹو کا ردعمل شدید تھا۔وہ ایک دوراندیش حکمران تھے اورہوا کارخ دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا انہوں نے کہا کہ ہم گھاس کھا کر گزارا کرلیں گے لیکن اپنابم بنائیں گے۔یہ کہنا 1974 ء کے بعد ایٹمی تیاری کا آغاز ہوا غلط ہے اس سے قبل ہی اس پرکام شروع ہوچکا تھا۔ بھٹونے قدرتی وسائل کے وزیرکی حیثیت سے کینیڈاسے نیوکلیئر ری ا یکٹر حاصل کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس پر عملدرآمد 1963 ء میں ہی ہوگیاتھا۔ جب بھارت نے دھماکے کیے تو بھٹونے ایک فرانسیسی کمپنی سے ری پراسیسنگ پلانٹ خریدنے کامنصوبہ بنایا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی اعانت حاصل ہوگئی اور بھٹوکی ہدایات پر ایٹم بم کی تشکیل پرکام شروع ہوگیا۔ یہ وہ دورتھاکہ جب امریکہ اور اسکے اتحادی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کی پالیسی پر گامزن تھے۔ ایٹمی پھیلائو اور روک تھام کاسلسلہ تین ادوارپرمشتمل تھا پہلادور پہلی جنگ عظیم کے بعدکاہے چونکہ یہ ٹیکنالوجی صرف امریکہ کے پاس تھی اس لیے وہ اسے خفیہ رکھنا چاہتاتھا۔ جب دوسرے ممالک کے پاس یورینیم کے ذخائر دستیاب ہوئے اور انہوں نے دھماکہ کردکھایا تو دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب امریکہ نے کہ جس کے پاس اسوقت چارسوپچاس اسلحہ کے ڈپو تھے اور ایٹمی صلاحیت موجود تھی ایک طرف امن کاسلوگن بلند کیادوسری طرف اسکے پھیلاو کو خطرناک قراردیا۔ تیسرا دوراسوقت شروع ہوا جس وقت بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرکے خطے میں امن کے مسئلے کوسبوتاڑ کیا۔ ترقی یافتہ ممالک نے پہلے تو ایٹمی پھیلاو کے روکنے پرزوردیا۔ اس سے قبل جاپان اورجرمنی پربھی قدغنیں لگائی گئیں۔بھٹو کے سامنے بھارت کے حوالے سے بہت سے خطرات درپیش تھے لہذا وہ اٰیٹمی بم کی افادیت سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’اگر میں قتل کردیاگیا ‘‘ میں لکھا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے پاس مکمل ایٹمی صلاحیت موجود ہے عیسائی یہودی اور ہندو کے پاس یہ صلاحیت موجودہے، کمیونسٹ ممالک کے پاس بھی یہ صلاحیت ہے صرف اسلامی ممالک کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں ہے مگر حالات بدلنے والے ہیں۔ ضیا دور میں بھی اس منصوبے پر عملدرآمد ہوتا رہا۔ پاکستان پر الزامات کے جواب میں ضیاء الحق نے اسی موقف پرزوردی کہ اسوقت پاکستان کوتوانائی کی ضرورت ہے۔ 1977 ء کے انتخابات میں امریکہ نے بھٹوکی مخالف پارٹیوں کی حمایت کی۔بھٹو کی موت کے بعد بھی ایٹمی تیاری کاسلسلہ جاری رہا اور بالآخر 1998 ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کرکے عسکری استحکام کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔اس دور کی تذبذب کا شکار حکومت کے لئے مردمجاہد اور مرد حق جناب مجید نظامی کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بن گئے انہوں نے کہا’میاں صاحب دھماکہ کردیں اس سے قبل کہ قوم آپ کا دھماکہ کردے‘۔ فضا نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی اور پاکستاں پہلاایٹمی اسلامی ملک بن گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا تھا کہ ایٹم بم کی تیاری اوربیلسٹک میزائل کی تیاری کاکام بہت بڑا چیلنج تھا۔یہ پیچیدہ اور مشکل بھی تھا اور خطرناک بھی۔ مگر آخر میں کامیابی کامزہ بیحد لذیذ اور پرسکون تھا۔ میرے رفقائے کاراور مجھ کواس پر فخرہے کہ ہم نے اپنے ملک کے دفاع کوناقابل تسخیربنادیا اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم کردار اداکیا۔ آج ہمارے لیے یہ لمحہ ء فکریہ ہے کہ ایک مضبوط دفاع توہمارے پاس ہے لیکن سیاسی اورمعاشی استحکام نہیں۔ اس کے لیے اسی جذبے کی ضرورت ہے جو اس وقت بھٹو میں تھا۔ ایک مضبوط دفاع والا ملک یہود، ہنود اور نصاریٰ کو نہیں بھاتا۔ ہمیں اس پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں سیاسی رسہ کشی اور باہمی انتشار کا خاتمہ ہو۔ ہم اس بات کااندازہ لگانے سے قاصر ہیں کہ جوبیج ہم بورہے ہیں اس سے شجرسایہ دار پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ ہم اس بات کو سمجھنا نہیں چاہتے کہ ہم اپنی ذاتی انا ،ہوس اور ذاتی مفادات کے لئے قومی مفاد کو نقصان پہنچارہے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے اور ہم نظریں نہیں ملا پارہے۔ایک ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے ہمیں ہراس عمل کی ضرورت ہے جوہمارے شایان شان ہو۔ ہم نے ایٹم بم توبنالیا لیکن کبھی یہ نہیں سوچاکہ قوم کیسے منظم ہوگی گڈگورننس کاخواب کیسے پورا ہوگا کاش ایٹم بم بنانے کے ساتھ ہم کوئی ایسابم بھی بنالیتے جو ہمارے دلوں سے خود غرضی ،ہوس، لالچ اور ذاتی مفادات کو جڑ سے نکال پھینکتا۔