
اپنی آزادی کے دفاع کیلئے ایٹمی صلاحیت کو حاصل کر لینے کا دن ہمار ے لئے یقینا بہت اہم ہے۔ اس دن کو خاص بنانے کیلئے یوم تکبیر کا نام دینے کا سہرا اوپن یونیورسٹی کے نیک نام پروفیسر ڈاکٹر شاہد اقبال کامران کے سر ہے لیکن اب پوری قوم اسے دل کی گہرایوں سے اپنا چکی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہم آزادی کی زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اظہار و عمل کی حقیقی آزادی احسان دانش کے بقول۔
عبادت ہے سراپا جذبہ تعمیر آزادی
دنیا بھر میں ایک بحث یہ بھی چلتی رہی ہے یا بعض بڑی طاقتوں کی طرف سے چلائی جاتی رہی ہے کہ ایٹمی قوت انسانیت کیلئے بہت خطرناک ہے لیکن ان بڑے ممالک میں سے کوئی بھی اپنی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتے رہے ہیں کہ دوسرے ممالک خاص طور پر عالم اسلام میں سے کوئی ایٹمی قوت کا حامل نہ ہو۔ بر صغیر میں آزادی کی تاریخ بہت المیہ ہے۔ بھارت نے پاکستان سمیت سب کو دبا کر رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی ہے اور اگر کس ملک نے واقعی آزاد رہ کر اپنی پالیساں اپنانے کی کوشش کی ہے تو اسے ختم کرنے کیلئے بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر ہر طرح کی سازشیں جاری رکھی ہیں۔ پاکستان کو دو لخت کرنے میں جہاں اپنوں کی سازشیں کام آئیں وہاں ایک بڑا کردار بھارت نے بھی ادا کیا اور پھر انہی حالات نے پاکستانی قیادت کی سوچ بدلی اور ہر چہ بادہ باد کہتے ہوئے بھٹو نے ملتان میں انجینئروں کے اجلاس میں گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے والی بات کی تھی اور پھر ڈاکٹر عبدلقدیر جیسے بیرون ملک موجود محب وطن نابغوں کی آمد غیبی امداد بن کر آئی اور پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ اگر 1986 میں براس ٹاک کے نام پر اور بہانے سے بھارت پاکستان کی راجستھان والی سرحد پر چھ لاکھ فوج جمع نہ کرتا اور پھر بعد میں 1990 میں بھارتی افواج کے پر تشدد د بائوکے نتیجے میں کشمیری حریت پسند اپنی آزادی کی تحریک کو تیز نہ کر دیتے اور پاکستان کوخوفزدہ کرنے کیلئے بھارت 1998 میں گیارہ اور 13 مئی کو اوپر نیچے دھماکے نہ کر دیتا تو پاکستان عالمی دبائو کے باعث ایٹمی صلاحیت حاصل کر لینے باوجود اس کا 28 اور 30 مئی کووہ اظہار نہ کرتا جس نے عالمی سطح پر عسکری تاریخ کا منظر نامہ بدل کررکھ دیا۔ اس موقع پر یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوا۔ اس کامیابی کے پس منظر میں چاغی چشمہ کہوٹہ کالا چٹہ خاران خوشا ب کڑانہ سرگودھا کرتھر اور دوسرے مختلف مقامات پر عرق ریزی ہے اس کے پس منظر میں بے شمار قابل احترام انجینئروں سائنسدانوں عام مستریوں محنت کشوں کی رات دن کی مساعی ہے اس کے پس منظر میں ہماری سپاہ کی ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کیلئے عقابی نگاہوں اور جگراتوں کی داستانیں ہیں۔ اس کے پیچھے ہماری سیاسی اور بیوروکریسی کی حب الوطنی کے جذبے ہیں۔ لیکن اس تاریخ کا ایک المناک پہلو بھی ہے کہ ہم اپنی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے رات دن ایک کرنے والے اپنے ہیرو?ں کو وہ عزت دین میں ناکام رہے ہیں جس کے وہ مستحق تھے۔ بلا شبہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے جو کچھ بھی کیا اور براہ راست یا بالواسطہ جوبھی قربانیاں دیں انکے پس منظر میں بنیادی سوچ آزادی کے ساتھ رہنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کی خواہش رہی ہے قائد اعظم سے لیکر آج تک پاکستانی قائدین کی اکثریت اسی حوالے سے مختلف نعرے لیکر میدان میں اترتی رہی ہے اورجواب میں استحصالی قوتوں اور اغیار نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پاکستان حقیقی آزادی کے ثمرات سے محروم رہے۔ پروین شاکر کے بقول۔
بدلے جاتے ہیں یہاں روز طبیب
اور زخموں کی کہانی ہے وہی
ماضی کی نیم غلامانہ سوچ کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم دنیا کی اقوام سے پیچھے ہیں اور ہر طرح کا معاشی سیاسی عدالتی تعلیمی ابلاغی بحران ہمارا مقدر بن چکا ہے اور مستقبل میں بھی جلد کو ئی بہتر صورتحال سامنے آتی نظر نہیں آتی۔ہم آج ایٹمی صلاحت کے حامل ضرور ہیں اوراب باہر سے خطرات بہت کم ہو چکے ہیں لیکن اب باہر کے دشمنوں نے ایک عرصے سے ہمارے اندر اپنے تخریب کاری کے نئے مورچے قائم کر لئے ہیں۔اب ایک عرصے سے ہمیں اندر سے کھوکھلا کرنے کی نئی چالیں چلی جا رہی ہیں۔کوشش کی جارہی ہے کہ قوم مجموعی طور پر انتشار کا شکار رہے۔ کوئی ریاستی نظام صحت مندانہ خطوط پر کام نہ کر سکے۔ انصاف کا عمل معمول پر نہ رہیے ہمارے تجارت صنعت زراعت تعلیم صحت سیاحت کے نظام کو ترقی کے راستے پر نہ چلنے دیا جائے۔ ہمارا سکہ مستحکم نہ رہے۔ ہمارا ادائیگیوں کا نظام درہم برہم ہو جائے۔ جمہوری سسٹم معمول پر نہ رہے۔ توانائی کے وسائل بجلی گیس غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہو جائیں۔ہر طرف بے چینی ہو اور لوگوں کو اپنی پڑ جائے۔ وطن کے محافظوں اور عوام کے مابین محبت کے رشتوں کو کمزور کیا جائے اور اللہ کی یہ نعمت پاکستان خدا نخواستہ کسی نئے المیہ سے دوچار ہو جائے ۔
تخت ہے اور کہانی ہے وہی
اور سازش بھی پرانی ہے وہی
آج یوم تکبیر ہے اس لئے تمام تر خرابیوں کے باوجود امید کی بات کرنی ضروری ہے۔ ان سازشوں کے ناکام ہو جانے کی خواہش کی بات ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کو اللہ نے تمام نعمتوں سے نوازا ہے اگر بائیس کروڑ سے زیادہ کی یہ باہمت قوم پز امید رہ کر باہمی اتحاد سے سازشوں کا مقابلہ کرے تو اب بھی صورت حال بدل سکتی ہے۔ قربانی کے مہینے کی آمد آمد ہے اگر پوری قوم اور خاص طور پر ہماری قیاد ت ذاتی مفادات کی قربانی دے سکے اپنی خواہشات کی قربانی دے سکے تو منظربدل سکتا ہے۔ اگر ہمار ے ریاستی ادارے آئین کی اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنا سکیں تو اب بھی بہت کچھ ممکن ہے
کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر
٭…٭…٭