
28، مئی 1998 ء میں پاکستان نے بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پرکامیاب پانچ ایٹمی دھماکے کئے جو کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ’’ یوم تکبیر‘‘کے نام سے منسوب ہوا ، ایٹمی دھماکے قوتِ ایمانی ، عزم و استقلال اور جذبہ ء حب الوطنی میں مضمر ملک خداداد پاکستان اور پاکستانی قوم کی بقاء کا زعیم ہیں اگر چہ ملکی معاشی و سیاسی حالات ا نتہائی تشویشناک صورتحال میں گھرے ہوئے ہیں اسکے بادجود آج اہل وطن ان مشکل اور ذہنی ہیجان کے ماحول میں بھی یہ تاریخی اور اہم دن قومی جوش و جذبہ کے ساتھ منا رہے ہیں ، اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کے ناطے ساری اْمتِ مسلمہ کیلئے اعزاز اور فخر کا دن ہے ، 1958 ء میں جنرل ایوب خان کی کابینہ کے وزیر ذوالفقاع علی بھٹو نے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کی بنیاد رکھتے ہوئے منیر احمد خان کو کمیشن کے فرائض سونپے ، بعد ازاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کی بنیاد رکھی ، اسکے ساتھ ہی سینکڑوں نوجوان سائنس دانوں کو 1956 ء کے پاک امریکہ سول نیوکلیئر پروگرام کے تحت تربیت کیلئے امریکہ بھیجا دوسری طرف پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے 18 مئی 1974 ء میں پاکستان سے ملحقہ سرحد راجستھاں میں پہلا دھماکہ کیا یہ سرحد صرف 93 میل کی دوری پر ہے ،اسکے بعد بھارت نے مئی 1998 ء میں دوبارہ ایٹمی دھماکے کئے، ان ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت میں ہر سطح پر پاکستان کو دھمکیاں دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوا ، یہ وہ لمحہ تھا کہ پاکستان کی قیادت بھارت کے تکبر اور غرور سے بھر پور رویے کا سنجیدگی سے جواب دیتی لہٰذابین الاقوامی دبائو خاص کر امریکی دبائو کے تحت ممکن تھا کہ پاکستان بھارت کے ایٹمی دھماکوں اور دھمکیوں سے مرعوب ہو کر خاموشی اختیار کر لیتا لیکن اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے بھارتی خطرے کے پیشِ نظر اور تما م تر عالمی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے پہاڑوں میں بھارت کے مقابلے میں چھ دھماکے کر کے بھارت کی سٹی گم کر دی ، دھماکوں سے قبل بابائے صحافت مرحوم مجید نظامی صاحب نے نواز شریف سے کہا تھا کہ ’’ اگر آپ اب دھماکے نہیں کریں گے تو عوام آپ کا دھماکہ کر دے گی‘‘۔ پاکستان کی جمہوری حکومت کے آزادانہ فیصلے کی بدولت پاکستان مکمل طور پر اعلانیہ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن گئی ، جب پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اس وقت ایٹم سے صر ف اور صرف توانائی کا حصول مقصود تھا ، اس ادارے کے پہلے سربراہ ڈاکٹر نذیر احمد تھے دوسرے سربراہ ڈاکٹر اے ایچ عثمانی تعینات ہوئے، ڈاکٹر عثمانی ہی کی سربراہی میں کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ لگایا گیا تھا ، اس پلانٹ کی خریداری کیلئے 1964 ء میں اس وقت کے وزیر خزانہ شعیب احمد کی سربراہی میں ایک ٹیم کینیڈا گئی ، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب دنیا میں ایٹمی پروگرام پر پابندیاں کم ہی تھیں۔پلانٹ کی قیمت 60 ملین ڈالر جب طے پا گئی تو کینیڈا نے زائد دو ملین ڈالر کی ادائیگی پر پلانٹ کی ڈرائنگز ( نقشے) دینے کی پیشکش کرتے ہوئے مزید پانچ ملین ڈالر کے عوض ری پروسیسنگ پلانٹ بھی دینے کا عندیہ دیا ، چونکہ اس وقت پاکستان کا بجلی کے حصول کا ارادہ تھا اس لئے پاکستانی وفد نے اس میں دلچسپی نہیں لی ،ری پرسیسنگ پلانٹ کی اہمیت ایٹم بم کی تیاری کیلئے انتہائی اہم جز کی حیثیت رکھتا ہے جسکا ادراک ذوالفقار علی بھٹو نے کیا لیکن جنرل ایوب خان راضی نہ ہوئے ، بھارت نے جب 1974 ء میں ایٹمی دھماکے کئے تو بھٹو صاحب کی بصیرت اور ان کی دوراندیشی نے ریاستی اداروں کو قائل ہونے پر مجبور کر دیا۔ دنیا اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرسکتی کہ جنگ کسی بھی قوم یا ملک کے حق میں بہتر نہیں خاص کر ایٹمی جنگ جس سے کروڑوں افراد پلک جھپکتے لقمہء اجل بن جاتے ہیں ، اسکے باوجود مذہبی انتہاء پسند حکومتیں اور اسلحہ کے تاجر ممالک ایسی جنگوں کی ہولناکی کے بر عکس ملکوں میں تنازعات کو بڑھا کر اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ، دنیا میں اب تک دو عالمی جنگیں لڑی جا چکی ہیں جن میں لاکھوں اور کروڑوں لوگ پل بھر میں بھسم ہوگئے ، صرف جنگِ عظیم دوئم میں سات کروڑ سے زائد لوگ صفحہء ہستی سے مٹ گئے تھے۔
پاکستان ایک پْرامن ملک ہونے کے ناطے اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہونے سے ہمیشہ گریزاں رہا لیکن تقسیم ہند کے بعد سے ہی بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحانہ اور معادانہ رویہ اپنائے رکھا اس لئے مملکت پاکستان کو اپنی بقاء کی خاطر بھارت کی وجہ سے مجبوراً ایٹمی دھماکے کرنے پڑے، تاہم یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو بھارت نے ہمیشہ کمزوری کی نظر سے دیکھا ہے پاکستان کی افواج اورعوام ایک لازوال رشتے میں بندھی سیسہ پلائی قوم ہے جو کہ دشمن کے کسی بھی ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے ، یوم ِ تکبیر کے دن ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہماری صفوں میں گھسے ملک دشمن عناصر اور شرپسندوں کو چن چن کر کیفرِ کردار تک پہنچائیں جنہوں نے ملک میں افراتفری ، انتشار اور ملک کے شہیدوں کی بے حرمتی کی کاش کہ ایسا ہوتا کہ یومِ تکبیر کے دن کو قومی یکجہتی کے طور پر ایسے مناتے کہ اپنے محسنوں کو بلاتفریق یاد کرتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے اور ملک کی تمام سیاسی اور دینی جماعتیں ملک کر اجتماعی طور پر ان تمام شخصیات جن میں ذوالفقار علی بھٹو ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور نواز شریف کو خراجِ تحسین پیش کرتیں جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔