یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ واپس آ رہی تھی۔ نجم سیٹھی بورڈ کی سب سے طاقتور شخصیت تھے انہوں نے غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان میں کھیلنے کیلئے اضافی پیسے بھی دیے۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کو اضافی پیسے دینے کی وجہ سے انہیں میڈیا کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ صحافیوں کا موقف تھا کہ پاکستان کھیلنے کیلئے آنے والوں کو اضافی پیسے دینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ کرکٹرز ساری دنیا میں کھیلنے کیلئے جاتے ہیں اور کہیں بھی ایسا خصوصی برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ نجم سیٹھی کے مستعفی ہونے کے بعد احسان مانی بھی یہی خیالات رکھتے تھے۔ ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان پر براڈ کاسٹر کیساتھ ایک تنازعہ چل رہا تھا احسان مانی کا بورڈ سیٹلمنٹ کر رہا تھا جب میں نے بورڈ چیئرمین سے فون پر اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے اس معاملے میں بھی سابق چیئرمین کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو غیر ملکی ٹیموں کو اضافی پیسے بھی دیتے رہے ہیں سو اس معاملے کو چھوڑیں ہم معاملات سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غیر ملکی ٹیموں کو اضافی پیسے دینے پر نجم سیٹھی کا موقف تھا کہ وہ یہ سب پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کو یقینی بنانے کیلئے کر رہے ہیں۔ ان کی رخصتی کے بعد احسان مانی نے بھی اس فیصلے کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ اضافی پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہر حال اب وقت بدل چکا ہے اب کرکٹ بورڈ پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کو متحدہ عرب امارات میں مکمل کرنے کیلئے اضافی اخراجات برداشت کر رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ چند سال پہلے تک ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی پر اصافی اخراجات کو غلط سمجھنے والے اب پی ایس ایل کو بیرون ملک لے گئے ہیں اور وہاں اضافی اخراجات کو کرکٹ پر انویسٹمنٹ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی سینئر صحافی مرزا اقبال بیگ کے پروگرام میں شریک تھے دو سال میں یہ پہلا موقع تھا جب وہ سپورٹس پیج میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ مرزا اقبال بیگ نے جب سمیع الحسن برنی سے سوال کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو کافی ٹیکہ لگ گیا ہے۔ چارٹرڈ فلائٹ، بائیو سیکیور ببل کمپنی، ہوٹل کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ بورڈ کو کتنے اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ بورڈ ترجمان کا جواب تھا کہ "پی سی بی کرکٹ کیلئے ہے اور جو بھی پیسہ انویسٹ ہو رہا ہے وہ کرکٹ کے اندر ہی ہو رہا ہے اور وہ ری انویسٹ ہو رہا ہے جو بھی انویسٹ ہو رہا ہے سو فیصد اس فائدہ ضرور ہو گا"۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کا مکمل ہونا ضروری تھا لیکن دو ہزار سولہ، سترہ اور اٹھارہ میں ہونیوالے ایسے اضافی اخراجات کو غلط سمجھا گیا اور اب اپنی غلطیوں کو چھپانے کیلئے اضافی اخراجات کو انویسٹمنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ماضی میں دہشتگردی کی شدید لہر کی وجہ سے لگ بھگ سات، آٹھ سال تک ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو سکی اس وقت غیر ملکی کھلاڑیوں کو قائل کرنا اور ملک بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی نسبتاً مشکل کام تھا۔ اس کے باوجود موجودہ چیئرمین ان اقدامات کو نامناسب سمجھتے رہے اور آج اپنی کرکٹ بیرون ملک جانے کے باوجود اضافی اخراجات کو انویسٹمنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ جانے والوں کو غلط کہنے والے آج خود اس سطح پر ہیں کہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے خزانے پر اضافی بوجھ کو بھی سرمایہ کاری قرار دے رہے ہیں۔ چھٹے ایڈیشن کے بقیہ میچز کا متحدہ عرب امارات میں اعلان خوش آئند ضرور ہے لیکن کسی کے غلط فیصلوں، ناقص حکمت عملی اور کمزور فیصلہ سازی کی وجہ سے ہونیوالے مالی نقصان کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے۔ ملبہ کرونا پر ڈالنے کے بجائے پاکستان کرکٹ کیلئے کرونا سے زیادہ خطرناک اعلیٰ افسران کا احتساب ضروری ہے۔
کرکٹ بورڈ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے صرف پاکستان سپر لیگ ہی نہیں ملک میں ہر سطح کی کرکٹ کو نقصان پہنچا ہے کھیل اور روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں۔ بالخصوص ڈومیسٹک کرکٹ میں ٹیموں کی تعداد کم کرنے سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ آئی سی سی کے ایلیٹ پینل میں شامل سابق پاکستانی امپائر اسد رؤف کا فون آیا کہنے لگے کہ "بورڈ کی موجودہ انتظامیہ کھیل کے بنیادی مسائل سے واقفیت نہیں رکھتی، معیار بلند کرنے کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ ہی نہیں ہو رہی تو معیار کہاں سے آئیگا۔ ساری کرکٹ ایک شہر تک محدود کر دی گئی ہے۔ جیسے کرکٹرز میں کھیل کی سمجھ بوجھ نہیں ہے ویسے ہی بورڈ آفیشلز میں انتظامی صلاحیتوں کی کمی ہے۔ ٹیم میں صرف دو بلے باز ہیں کیا ان کی تیاری یا بہتری میں موجودہ انتظامیہ کا کوئی ہاتھ ہے۔ بھارت نے دو ٹیمیں بنا دی ہیں وہاں ترجیح کرکٹ اور کرکٹرز ہیں۔ یہاں توجہ آفیشلز اور بھاری تنخواہوں پر ہے۔ بھارتی بورڈ اپنے سابق کھلاڑیوں کا خیال رکھتا ہے یہاں تک کہ اپنے پرانے گراؤنڈ سٹاف، کیوریٹرز کی دیکھ بھال بھی کرتا ہے۔ یہاں کرکٹرز کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ بدقسمتی سے گراؤنڈ سٹاف کو خزانے پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ کسی ملک کی کرکٹ ترقی کرتی ہے تو اس کی وجہ بورڈ آفیشلز کے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہاں کرکٹرز تو سامنے نہیں آ رہے لیکن ہر دوسرے دن ایک نیا افسر ضرور نظر آتا ہے"۔
جہاں تک سرمایہ کاری کا تعلق ہے۔ موجودہ بورڈ کو اچھی بھلی سپر لیگ ملی تھی آج وہ بھی مسائل کا شکار ہے۔ دنیا دو دو ٹیمیں بنا رہی ہے اور ہم زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کیخلاف بھی ٹیم منتخب کرتے ہوئے مسائل کا شکار ہیں۔ کرکٹرز کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے آفیشلز اپنے معاہدوں کے تحفظ میں مصروف ہیں۔ دنیا اپنے ریٹائرڈ گراونڈ سٹاف کو بھی نہیں بھولتی اور ہم اچھا بھلا کام کرنے والوں کو بوجھ قرار دیتے فارغ کر دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ بورڈ حقیقی معنوں میں کرکٹ پر سرمایہ کاری کرے۔ پی ایس ایل کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے تو لاکھوں کروڑوں اضافی خرچ کر دیے جائیں گے لیکن صوبائی کرکٹ، سٹی کرکٹ اور کلب کرکٹ کو آج تک اہمیت نہیں دی گئی جبکہ یہ حقیقی کرکٹ اور بنیاد ہے یہاں سرمایہ کاری کون کریگا۔ نجم سیٹھی نے بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کیلئے سرمایہ کاری کی موجودہ بورڈ کرکٹ واپس متحدہ عرب امارات لے گیا ہے اور اسے سرمایہ کاری قرار دے رہا ہے کون سی سرمایہ کاری بہتر ہے اس کا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024