عالمِ نفسہ نفسی
موجودہ حالات کسی قیامت کے منظر کا پیش خیمہ نظر آتے ہیں۔ہر طرف نفسہ نفسی کا عالم ہے۔ہر کوئی خوف و ہراس کی اس وباء میں اپنوں سے کنارہ کشی کرنے کی ہر ممکن کوشش میں ہے،ہر کوئی اپنی ذاتی سلامتی اور تندرستی کو ملحوظِ خاطر رکھتا نظر آتا ہے ۔ایسی فضا ہے ک ضبطِ تحریر میں لانے سے ہی صریر کانپ جاتا ہے ۔اس بھیانک وباء نے انسانیت کو اس طرح سے بے نقاب کیا ہے کہ ہر طرف سفید پوش افراد اپنی عزتوں کو ہتھیلی پر رکھ کر مدد کے لیے سر اٹھانے والے لوگوں سے اُمیدیں وابستہ کرتے نظر آتے ہیں اور مدد کرنے والے تسکینِ قلب کی خاطر مدد کے نام پر تماشائی بندرکی طرح سڑکوں پر سرگرداں نظر آتے ہیں۔نفسہ نفسی کے عالم کی انتہا اس حد تک جا پہنچی ہے کہ کھل کے مانگنے والے دستِ سوال کرتے نہیں تھکتے اور سامان کو ذخیرہ کرکے بیچتے نظر آتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف نام نہاد افراد پذیرائی کی خاطر ان ہی بے حس لوگوں کو اپنی شہرت کا بھرم قائم کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔تباہی کے دہانے پر کھڑا معاشی حالات کا سونامی،سفید پوش لوگوں کو ندامت کی دلدل میں ہر دن غوطہ زن کرتا ہے اور بے حسی پر اترنے پر مجبور کرتا ہے۔لیکن ضمیر کی آواز کے آگے یہ طبقہ آواز اٹھانے کو تیار نہیں جس کے باعث کوئی ان پر نگاہِ کرم کرنے کو بھی تیار نہیں۔ہر دن بے روزگاری کا سر چڑھتا کر اور دھاڑیں مارتا سمندر کتنے ہی غریب بچوں کی بھوک کا غرقِ سامان ہے اگر ہم اب بھی ڈگ ڈگی بجا کر اپنی انا کی تسکین کرتے رہے تو انسانیت اپنی موت آپ مرجائے گی۔ان لمحات میں کیوں ہم خالقِ کائنات کی طرف رجوع نہیں کرتے؟یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم معافی کے طلب گار ضرور ہیں لیکن دل کی گہرائیوں سے معافی مانگنے سے قاصر ہیںراہِ نجات چاہتے ہیں لیکن راہِ مستقیم سے قدرے فاصلے پر ہیں۔مالک دوجہاں کی خوشنودی کے منتظر ہیں لیکن اس کے احکامات کے منافی ہیں۔کاش ! ہم نفسہ نفسی چھوڑ کر متحد ہوجائیں اور مالکِ عرش و زمین کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انسانیت کی قدر کریں اور اس کی رضا کے لئے سرسجدہ بہ سجود ہوجائیں۔ثناء کرن۔حیدرآباد کینٹ