ذوالفقار علی بھٹو نے 28 نومبر 1972ء کو کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔ انہوں نے 1965ء میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایک بیان میں کہا تھا ’’ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائینگے‘‘۔جنرل ایوب کی کابینہ کے طاقتور وزیر ایٹمی صلاحیت کیخلاف تھے۔ وزارت خارجہ کو خفیہ اطلاع مل چکی تھی کہ بھارت اعلانیہ طور پر ایٹمی ٹیکنالوجی کی مخالفت کررہا ہے مگر خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کے پروگرام پر گامزن ہے۔ چنانچہ اجلاس طلب کیا جس میں ایٹم بم کے جلد حصول کا فیصلہ کیا گیا۔ امریکہ کو بھٹو شہید کے خفیہ ارادوں کا علم ہوچکا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو خصوصی دورے پر پاکستان بھیجا گیا جس نے بھٹو صاحب کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ایٹمی پالیسی ترک نہ کی تو ان کو ’’عبرتناک مثال‘‘ بنا دیا جائیگا۔ بھٹو شہید نے امریکی دھمکی کو مسترد کردیا اور ڈاکٹر قدیر خان کی مکمل سرپرستی کی۔ جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو 1979ء میں پھانسی دی انکو یہ خوشخبری مل چکی تھی کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔شہید بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے حوالے سے امریکہ کا دبائو قبول نہ تو ان کو عظم مقصد کی خاطر تختہ دار پر جھولنا پڑا۔
بھارت نے 11مئی 1998کو دھماکے کئے تو میاں نواز شریف ابتدائی دنوں میں مصلحت اور عالمی طاقتوں کے دبائو میں نظر آئے۔تاہم جناب مجید نظامی کی طرف سے فیصلہ کن کردار کے باعث انہوں نے دھماکے کرنے عزم کیا اور اس عمل پیرا بھی ہوئے۔یہ 28 مئی 1998ء کا مبارک دن تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا مگر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے جن عناصر نے حب الوطنی اور اسلام پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے تاریخی کردار ادا کیا‘ ان میں مرشد صحافت اور مرد میدان جناب مجید نظامی سرفہرست ہیں۔ یہ بات تاریخی شواہد کی بنیاد پر واشگاف الفاظ میں کہی جاسکتی ہے کہ اگر جناب مجید نظامی اس معاملے میں حکومت وقت سے قومی سربلندی کی خاطر ٹکرا جانے والی پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل پیرا ہونے کی تلقین نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ بعض بڑے بڑے حاشیہ نشین اور چاپلوس صحافیوں کی ایک کھیپ مخصوص مفادات کے تحت پاکستان کی ذمہ دار قیادت کو ایٹمی دھماکے کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی مگر یہ مجید نظامی صاحب ہی تھے کہ جنہوں نے اس حوالے سے نوائے وقت کی جاری کردہ استحکام پاکستان تحریک کو نقطہ عروج تک پہنچا دیا۔21 مئی 1998ء کو وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں مدیران اخبارات و جرائد سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں وزیراعظم اور قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کے مابین بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکہ کرنے کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
دوران گفتگو دھماکہ کرنے کی صورت میں تمام ممکنہ پابندیوں اور ان کے نتیجے میں ملک کے غریب عوام کی اقتصادی مشکلات میں مزید اضافے کے حوالے سے بھی بحث و تمحیص ہوئی بعض دانشور مدیران جرائد نے ایٹمی دھماکے کرنے کی مخالفت کی۔ ایسے ماحول میں واحد آواز نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کی تھی جنہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ وزیراعظم کے سامنے قومی امنگوں کی ترجمانی کی۔ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب! آپ ایٹمی دھماکہ کرو ادیںورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دینگے۔ جناب مجید نظامی نے یہ بھی کہا کہ آپ ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں آپ کو دوہری وارننگ کا سامنا ہے۔ اگر دھماکہ کرتے ہیں تو ممکن ہے امریکہ آپ کا دھماکہ کر دے مگر قومی اور ملکی سالمیت اس امر کی متقاضی ہے کہ آپ ایٹمی دھماکہ کریں۔گویا جناب مجید نظامی نے نوائے وقت کی طرف سے سر دربار حاکم وقت کو بلاخوف و خطر کھری کھری سنا کر قومی فرض ادا کیا تھا۔ اسکے بعد جناب مجید نظامی نے 22 مئی 1998ء کو اداریہ میں لکھا کہ ’’پاکستان کی گومگو پالیسی کی وجہ سے بھارت اور مغربی دنیا کو اس وقت تک ہماری صلاحیت کے بارے میں یقین نہیں آسکتا جب تک تجربہ کر کے ہم بتا نہیں دیتے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت بھارت سے کس قدر زیادہ اور ترقی یافتہ ہے‘‘۔ نیوز ویک نے تو کھل کر کہہ دیا ہے کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو اسکی صلاحیت مشکوک سمجھی جائیگی مگر دوسروں کا بھی یہی خیال نظر آتا ہے۔ ممکن ہے وہ یہ لکھ کر دھماکہ کروانا چاہتے ہوں۔
28 مئی 1998ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی اور دوسرے قومی سائنسدانوںکی معیت میں جب میاںنواز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے تو پورا ملک خوشی و مسرت سے جھوم اٹھا۔دھماکے کرنے کے فوری بعد وزیراعظم نواز شریف نے جناب مجید نظامی کو فون کرکے بتایا کہ ہم نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا ہے۔ میاں محمد نواز شریف نے جناب مجید نظامی کو نشان پاکستان دینے کا اعلان کیا۔ جناب مجید نظامی نے پوچھا کہ مجھے یہ اعزاز کیوں دیا جارہا ہے تو وزیراعظم نے کہا کہ ایٹم بم بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اور ایٹمی دھماکہ کروانے پر آپ کو نشان پاکستان کا اعزاز دیا جارہا ہے۔ الحمدللہ ! آج 28 مئی کو یومِ تکبیر منایا جارہا ہے۔ یہ یومِ تفاخر ہے اور ہماری قومی تاریخ کا انمٹ باب ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024