دھرتی ماں پر قربان ہونیوالے پاک فوج کے افسر وجوان
19مئی 2020کو صوبہ بلوچستان میں مچھ کے علاقے پیرغائب سے پٹرولنگ پر معمور پاک فوج کے 6جوان اپنے بیس کیمپ کی طرف واپس آتے ہوئے گاڑی کے بارودی سرنگ کی زد میں آنے سے شہید ہوگئے ۔ شہید ہونے والوں میں نائب صوبیدار احسان اللہ خان ، نائیک زبیر خان ، نائیک اعجاز احمد، نائیک مولا بخش، نائیک نورمحمد اور ڈرائیور عبدالجبارشامل تھے۔ دہشت گردی کا دوسرا واقعہ بلوچستان میں کیچ کے علاقے میں اس وقت پیش آیا جب وہاں پٹرولنگ کے دوران دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں سپاہی امداد علی وطن پر قربان ہوگیا۔ قبل ازیں 8مئی کو کیچ ہی کے علاقے میں پٹرولنگ کے دوران ایف سی کی گاڑی بارودی سرنگ سے ٹکرانے سے پاک فوج کے میجر ندیم عباس ، نائیک جمشید، لانس نائیک تیمور، لانس نائیک خضر حیات، سپاہی ساجد اور سپاہی ندیم شہادت کا جام نوش کر چکے تھے۔ یوں صرف مئی کے مہینے میں بلوچستان میں ایک آفیسر وجونیئر کمیشنڈ آفیسر سمیت پاک فوج کے 13 بیٹے دھرتی ماں پر قربان ہوچکے ہیں۔ یہ کوئی نئی قربانی نہیں جو پاک فوج کے آفسران و جوانوں نے دی ہو۔حالیہ ادوار میں اس کا آغاز 2001میں افغانستان پر امریکی افواج کے قبضے کے نتیجے میں وہاں حامد کرزائی کی نمائشی قیادت میں شمالی اتحاد کو ملنے والے اقتدار کے بعد شمالی اتحاد کی طرف سے بھارت کو افغانستان میں سونپے گئے کردار اور پاکستان کی افغانستان سے ملحقہ سرحد کے ساتھ افغان صوبوں کنٹر، ننگر ہار، پکتیا، خوست، کندھار اور ہلمند میں بھارت کو کونسل خانے کھولنے کی اجازت دینے کے ایک سال بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ جب افغان حکومت و خفیہ ادارے این ڈی ایس (جس کی تشکیل میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا)اور بھارتی خفیہ ادارے را نے مل کر بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو پاکستان کے خلاف صف آرا کیا اور صوبہ کے پی کے میں قبائلی علاقوں کو مرکز بناکر پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے آڑ میں دہشت گردوں کی جماعت تحریک طالبان پاکستان(TTP) کی بنیاد رکھی گئی، جس میں بھارتی کونسل خانوں میں بیٹھے را کے اعلیٰ افسران اہم کردار ادا کیا۔ صدیوں سے کھلے روایتی دشوار گزار بارڈر پردونوں ممالک کے قبائل کی طرف سے آزاد انہ آمدورفت کیلئے استعمال ہونے والے راستوں نے بھارت سمیت دیگر پاکستان دشمن قوتوں کیلئے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کو ٹھکانے قائم کرنے اور انہیں کے ذریعے پاکستان پر تاریخ کی مشکل ترین دہشت گردی کی جنگ مسلط کرنے کا سنہری موقع فراہم کردیا۔ جس کے بعد دشمنوں نے نہ صرف بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی ساتھ ہی پاکستانی قبائلی علاقوں کو محفوظ چھائونیوں میں بدل کر مقامی عمائدین کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا تاکہ خوف و دہشت کے عالم میں کوئی ان کی موجودگی کو چیلنج نہ کرسکے۔ اس دور میں وہاں قائم پاک فوج کی چوکیوں سے پاک فوج کے جوانوں کو اغوا کر کے ان پر بدترین تشدد کے بعد ان کے سرکاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلنے جیسے گھنائونے فعل کو ویڈیو کیمروں کے ذریعے عکس بند کر کے مذکورہ ویڈیو کلپس انٹرنیٹ کے ذریعے میڈیا تک پہنچائے گئے اور بتایاگیا کہ وہ یہ سب پاکستان میں شرعی قوانین اور اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کر رہے ہیں ۔
بلوچستان کی صورت حال بھی کم تکلیف وہ نہیں تھی۔ یہاں پاک فوج کو بلوچستان کے وسائل پر قابض قرار دے کر اسے بلوچستان میں غربت و پس ماندگی کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا تھا ۔ بدقستمی سے پاکستان کے اندر سے بعض سیاسی جماعتی اور مخصوص میڈیا بھی پاک فوج کے خلاف ’’پوائنٹ سکورنگ‘‘ کیلئے بلوچ علیحدگی پسندوں کی تخریب کاریوں کو ان کی طرف سے حقوق کی جنگ اور اسی طرح قبائلی علاقوں میں سرگرم ٹی ٹی پی کے دہشت گردی کو پاک فوج کا ماضی کے افغان مجاہدین سے اختلاف کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔اس دور میں بلوچستان کے بہت سے اضلاع میں تعلیمی اداروں یا سرکاری دفاتر میں حضرت قائداعظم کی فوٹو لگانا یا عمارتوں پر پاکستان کا پرچم لہرانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ وہ بڑے بلوچ سردار جو ہر دور حکومت میں بلوچستان میں کبھی گورنر تو کبھی وزیراعلیٰ کے عہدوں پر براجمان رہے یا مختلف وزارتوں سے مستفید ہوتے رہے ۔ جو بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے اور بلوچ عوام کی پس ماندگی کے اصل ذمہ دار تھے وہ بھی اس صورتحال میں ایک طرف علیحدگی پسندوں کو شہہ دے رہے تھے تودوسری طرف وفاقی حکومت سے بلوچستان کی پس ماندگی دور کرنے اور قیام امن کیلئے فنڈز بھی بٹورتے رہے۔ قارئین کو 15جون 2013کا وہ تکلیف دہ دن یاد ہوگا جب زیارت کے پرفضاء مقام پر حضرت قائداعظم کی رہائش گاہ کوتباہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ گو قائد کی رہائش گاہ کو جلد ہی اصلی حالت میں بحال کر دیا گیا تھا۔ تاہم دہشت گردوں کی طرف سے عمارت کو جلانے کا مقصد دنیا کو باور کرانا تھا کہ پاکستان کا بلوچستان پر کنٹرول عملاً ختم ہوچکا ہے ۔ وہاں بس علیحدگی پسندوں کا راج ہے۔
پاک فوج ،آئی ایس آئی اور فوج کے خفیہ اداروں کے افسران و جوانوں نے سر پر کفن باندھ کر بلوچستان و خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف پاکستان کے اند ر سے برپا کی گئی جنگ میں ان دہشت گردوں کو شکست ہوجائے گی جنہیں گوریلہ جنگ کی تربیت دینے کے بعد دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں کی ناقابل یقین حدتک وافر مقدا ر کے ساتھ میدان میں اتارا گیا تھا۔ ان دہشت گردوں کو سرحد پار سے ہر طرح کی کمک حاصل ہونے کے علاوہ خلائی سیارچوں کے ذریعے پاک فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی تکنیکی معاونت بھی دستیاب تھی۔ اس کے باوجود دہشت گرد بری طرح شکست کھا گئے تو اس کی بنیادی وجہ دھرتی ماں اور قوم کی سلامتی و عزت و ناموس کے تحفظ کیلئے پاک فوج کے آفسران و جوانوں کی طرف سے دی جانے والی قربانیاں تھیں۔ کیسے کیسے خوبصورت جوان بیٹے اپنی حقیقی مائوں کو روتا چھوڑ کر دھرتی ماں پر جان نچھاور کرنے کیلئے گولیوں کی بوچھاڑ میں دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔ ایک شہید ہوکر گرتا تو دوسرا وطن کا سپاہی اس کی جگہ سنبھال کر دشمن سے مقابلہ جاری رکھتا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کیونکہ ملک حالت جنگ میں ہے ۔ اس کے باوجود فوج پر بطور ادارہ بعض پاکستانیوں کی طرف سے تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ حیران کن ہے۔ ابھی ہفتہ قبل ہزارہ موٹر وے پر لگے ، بیرئیر پر تعینات پولیس کے سپاہیوں سے تکرارکے دوران خود کو ایک کرنل کی بیوی بتاکر نازیبا الفاظ و طریقہ کار اختیار کرنے والی خاتون کی آڑ لے کر سوشل میڈیا پر جس طرح پاک فوج کے خلاف طنز کے تیر چلائے گئے یہاں تک کہا گیا کہ یہ’’ فوج کشمیر آزاد کرائے گی ؟‘‘تو کسی نے بطور ادارہ فوجیوں کے گھروں میں ملنے والی تربیت کا طعنہ دیا۔ فوج کے خلاف جملہ بازی میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے وابستگان کے علاوہ بہت سے دانشور بھی ہیں جو ہزارہ موٹر وے پر ایک خاتون کی بداخلاقی کو بنیاد بناکر فوج پر تنقید کرتے ہوئے بھول گئے کہ ان کی جملہ بازی سے ان ماوئوں اور بیویوں پر کیا گزرے گی جو اپنے بیٹوں اور شوہروں کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں اور انہیں اپنے پیاروں کی خون آلود یونیفارم وصول کرنی پڑتی ہے ایسے میں بہت سے معصوم بچے سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ان کی ماں خون آلود وردی وصول کرتے ہوئے روکیوں رہی ہے ۔ ان کا باپ کیوں نہیں آیا جو اُسی وردی میں گھر سے رخصت ہوا تھا ۔ ان سب جملہ بازوں اور طنز کے نشتر چلانے والوں کویاد ہونا چاہیے کہ جب دہشت گرد پورے ملک میں دندنہ رہے تھے۔ ہر طرف خود کش دھماکے ہورہے تھے تو یہی پاک فوج کے جوان و آفسران اور دکھائی نہ دینے والے خفیہ اداروں کے گمنام سپاہی تھے جو ان کا مقابلہ کر رہے تھے اور یہ فریضہ آج بھی وہی ادا کر رہے ہیں ۔