دودہائیاں بیت گئیں، پاکستان کی جوہری قوت برصغیر میں امن کی ضامن بن کر اثر دکھارہی ہے۔ کیا دلچسپ منظر ہوگا بھارت نے ’مسکراتا بدھا‘ اور پھر ’شکتی‘ کے ’کوڈ ناموں‘ سے پانچ جوہری دھماکے کئے، جس کا جواب اسے چھ دھماکوں سے ملا اور بھارتی ’بدھا‘ کی ’مسکراہٹ‘ غائب ہوگئی اور ’شکتی‘ کا جواب ’مہاشکتی‘ سے مل گیا، اس وقت کوئی اورشاعر واجپائی بی جے پی کی پہچان تھے، آج مودی بی جے پی کی پگڑی پہنے دوسری بار پانچ سال کے لئے تخت و تاج سنبھال رہے ہیں۔
11 مئی 1998 کو بھارت نے 43 کلوٹن کے پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو جیسے پاکستان کے طول وعرض میں آگ لگ گئی۔ عوام کے جذبات بپھرے ہوئے سمندر کا منظر پیش کررہے تھے۔ سارا پاکستان ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جوہری دھماکوں کے سوا کسی اور بات پر تیار نہیں تھا اس فیصلہ کن مرحلے پر متذبذب سیاسی قیادت کو گومگو کی کیفیت سے نکالنے کے لئے جنت آشیانی جناب مجید نظامی میدان میں آتے ہیں اور اس وقت کے وزیراعظم جناب نواز شریف مخاطب کرکے باآواز بلند فرماتے ہیں۔’’ میاں صاحب دھماکے کردیو ورنہ قوم تہاڈا دھماکہ کردے گی‘‘
ایسے میں ’ترقی پسندی‘ کے نام پر دشمنوں کی ’جگالی‘ کرنے والوں نے بھی منمنانے کی کوشش پوری کی۔ کسی نے کہا کہ جوہری قوت سے کیا لینا دینا، بھوکی قوم کو روٹی دو، اسے بم سے کیالینا دینا؟ کسی نے مشورہ دیا کہ ’دھماکہ نہ کرو، پیسے لے لیں؟‘، کوئی دانشمندی کے نام پر یہ دانہ ڈال رہا تھا کہ ’دھماکوں سے پاکستان کو کیا ملے گا، الٹا پابندیاں لگ جائیں گی، بہتر ہے دھماکہ نہ کرنے کے بدلے امریکہ سے کہہ سن کر قرض معاف کرالیں،‘ کوئی یہ کہہ کر ڈرا رہا تھا کہ ’دھماکہ ہوتے ہی پاکستان پر حملہ ہوجائے گا اور پاکستان کا معاملہ دی اینڈ سمجھیں۔
آج پلٹ کر دیکھیں تو واضح کردار اور ان کے اعمال نظر آتے ہیں۔ کس نے وفا نبھائی، کس نے غداری کی، کس نے حوصلہ بندھایا تو کون دشمن کا آلہ کار بنا ہوا تھا؟ ’مسکراتے بدھا‘ کے جواب میں ’یوم تکبیر‘ کا فلک شگاف نعرہ بلند ہوا تو بت پرستوں کی ہڈیاں چٹخ اٹھیں ، پوری قوم نے سجدہ شکر ادا کیا اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سروخرو کیا۔ پوری قوم کی اجتماعی دانش ہر ’کھسر پھسر‘ کو پائوں تلے مسل کر اپنی منزل اور ہدف پاچکی تھی، پاکستان دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی واحد جوہری قوت بن چکا تھا۔28 مئی 1998 جمعرات کو سہ پہر تین بجکر چالیس منٹ پر چاغی میں پانچ ایٹمی دھماکے کئے۔ بلوچستان صوبہ کے چاغی ضلع میں واقع کوہ سلیمان کے پرشکوہ پہاڑی سلسلے راس کوہ کو یہ اعزاز ملا۔ ’راس‘ کا مطلب راہداری اور بلوچی زبان میں بھی ’کوہ‘ پہاڑ کو کہا جاتا ہے۔ یہ پہاڑی راہداری پاکستان کے دفاع، سلامتی اور خودمختاری کے لئے بلاشبہ ایک نئی راہداری ثابت ہوئی۔ ان پہاڑوں نے اپنا سینہ پیش کرکے تاریخ میں اپنا نام لکھوالیا۔پھر 30 مئی 1998ء کو ایک اور ایٹمی دھماکہ کیاگیا جس کی مقدار بارہ کلو ٹن بتائی گئی۔ ساتویں’فشن ڈیوائس‘ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اسے ’ایکسپلوڈ‘ نہیں کیا گیا لیکن بہرحال قوم کو جہاں پانچ جوہری دھماکوں کے بیک وقت چلائے جانے کی خوشی تھی، وہاں اسے مزید خوشی چھٹے دھماکے پر اس لئے ملی کہ ہم نے بھارت سے ایک دھماکہ زیادہ کر دکھایا۔ یہ قوم کا پیغام تھا کہ ہم بھارت سے برابر نہیں، اس سے ایک قدم آگے، اس پر برتر رہنا چاہتے ہیں۔ یہ قوم کی سوچ اور ذہن ہے۔
آج کے تاریخی دن مرد آہن، نظریہ پاکستان کی عمر بھر محافظ’ منفرد اور بے مثل خلدآشیانی مجید نظامی کے بابرکت تذکرے کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی کہ یہ کامیابی حاصل ہونے میں ان کا بھی بنیادی کردار ہے۔21 مئی 1998ء کو وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں مدیران اخبارات وجرائد سے ملاقات میں جنت آشیانی مجید نظامی نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف پر اپنے روایتی دبنگ لہجے میں قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’جناب وزیراعظم آپ دھماکہ کریں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی۔‘‘ جناب مجید نظامی نے 22 مئی 1998 کو نوائے وقت کے اداریہ میں لکھا کہ ’پاکستان کی گومگو کی پالیسی کی وجہ سے بھارت اور مغربی دنیا کو اس وقت تک ہماری صلاحیت کے بارے میں یقین نہیں آسکتا جب تک تجربہ کرکے ہم بتا نہیں دیتے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت بھارت سے کس قدر زیادہ طاقتوراور ترقی یافتہ ہے۔‘ اس وقت عالمی جریدے نیوزویک نے یہ لکھ بھی دیا تھا کہ اگر پاکستان نے جوہری دھماکہ نہ کیاتو اس کی ایٹمی صلاحیت مشکوک سمجھی جائے گی۔اس میں بھی کلام نہیں کہ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکہ نے دھماکے رکوانے میں پورا زور لگایا۔ 27 مئی 1998 کی رات امریکی سفیر سائمنز جونئیر کو ان کی حکومت نے وزیراعظم ہائو س بھیجا۔ سفیر نے صدر کلنٹن کا پیغام نوازشریف کو پہنچایا جس میں کچھ تجاویز بھی تھیں لیکن قوم کا دبائو ہر مغربی اور امریکی لالچ اور ترغیب کوبہاکر لے گیا۔ایٹمی دھماکوں کے بعد پہلا فون میاں نوازشریف نے جناب مجید نظامی کو کیا اور مبارکباد دی اور انہیں نشان پاکستان دینے کا اعلان کیا۔ نوازشریف نے کہاتھا کہ ایٹم بم بنانے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اور ایٹمی دھماکہ کروانے پر آپ کو نشان پاکستان کا اعزاز دیاجارہا ہے۔
جناب نظامی کو کہاں کہاں یاد نہ کیاجائے۔جاپان کی جانب سے جب پاکستان کے جوہری دھماکوں کی مخالفت اور پابندیاں لگائی گئیں تو نوائے وقت کے صفحہ اول پر ایک تصویر شائع ہوئی جس میں جاپانی فوجی زمین پر ہتھیار ڈالے لیٹے ہوئے تھے اور ایک امریکی فوجی اپنا بوٹ اس کے سر پر رکھے ہوئے تھا۔ اس تاریخی تصویر کے نیچے یہ تحریر درج تھی کہ ’’اگر جاپان کے پاس جوہری صلاحیت ہوتی تو اسے اس ذلت اور رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔‘‘
پاکستان کی جوہری پروگرام کے حقیقی خالق دوراندیش ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ 1971میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد یہ سوچ پروان پاچکی تھی کہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے تدارک کے لئے روایتی قوت کے ساتھ ساتھ ہماری سلامتی کے لئے جوہری قوت ناگزیر ہے۔1972 میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی جس کے لئے پاکستان کے گمنام ہیروز نے قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی جو دھرتی ماں کی سربلندی کے لئے بنیاد کا پتھر بن کر گم نام ہوگئے وہی اس کے اصل وارث، بانی، معمار اور محافظ ہیں اور رہیں گے۔ نجانے کیسے کیسے اور کہاں کہاں جان جوکھوں میں ڈال کر یہ منزل پائی گئی۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد جنرل ضیاالحق، غلام اسحاق خان سے لے کر سائنسدانوں، ٹیکنیشنز، انجینئرز، معاونین کی تمام کی تمام ٹیم خراج تحسین اور عقیدت کی مستحق ہے۔ یہ قوم کی بقا کا معاملہ تھا۔ اس کے لئے جس طرح سب نے کردار ادا کیا وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس سفر میں جو جان سے گئے، وہ شہید کبھی فراموش نہیں ہوسکتے، ان کا صلہ یقینا اللہ رب العزت کے ہاں منفرد اور بے مثال ہے۔ یہ سفر تھما نہیں،جاری ہے اور انشااللہ جاری رہے گا۔ یوم تکبیر کانام تجویز کرنے والا نارتھ ناظم آباد کراچی کا رہائشی مجتبیٰ رفیق بھی ہمیں یاد رہنا چاہئے ۔ اس کالم نگار کو سید والا تبار جناب عباس اطہر بے طرح یاد آتے ہیں جنہوں نے باضابطہ اعلان سے گھنٹوں پہلے فون کرکے بتایا تھا ’’ پتر خوش ہوجا ایٹمی دھماکے ہو گئے نیں نظامی صاحب نوں وزیراعظم نے خود فون کرکے مبارک باد دتی اے‘‘
یہ ہے ہمارے حصے کی کہانی، یہ پر شکوہ داستان مختلف انداز میں صدیوں قرنوں تک بیان کی جاتی رہے گی کہ یہ پاکستانی قوم کے فخر وغرور کی علامت بن کر لوک داستان میں ڈھل چکی ہے ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024