ایک سوال : یوم تکبیر سے سپائی کرانیکلز تک!
ایک کمسن بھی اگر اس بات پر غور فرما لے کہ، میرا وجود میرے خاندان یا سوسائٹی کیلئے کس قدر سودمند اور کتنا نقصان دہ ہے، تو وہ بھی بالغ نظر ہو جائے، کہ میرے ہونے سے کیا ہے؟ اگر میں نہ ہوتا ، تو کیا ہوتا؟ مگر خود احتسابی اور خود بینی آسان کام نہیں، یہ ایسا ہی مشکل کام ہے جیسے کوئی ادائیگی فرض، جو فرائض سے آشنا ہوں انہیں حقوق کیلئے ہاتھ کم ہی پھیلانا پڑتا ہے، مگر یہ بالغ نظری اور فرض شناسی کا کام اشرف المخلوقات میں سے اشراف کا ہے، کسی نتھو خیرے یا طفیلئے کا نہیں۔ واضح رہے کہ اشراف کہا ہے اشرافیہ نہیں! اسی فکر سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنم لیتے ہیں، یوم تکبیر مقدر کا حصہ بنتے ہیں اور پاکستان ایٹمی پاکستان!
پاکستان میں بے پناہ باصلاحیت لوگ ہیں، 28 مئی کا یوم تکبیر کے ہمیشہ اس ملک کی دوستی کے زنجیری عمل کو سلام پیش کرتا ہے۔ حالات یہاں جیسے بھی ہوں مگر جب یہاں سے بیرون ملک جانے والے طلبہ، ڈاکٹرز اور انجنئیرز کی اکثریت اپنا لوہا منواتی ہے۔ آرمی کے تعلیمی اور تربیتی ادارے کسی آکسفرڈ اور ہاورڈ سے کم نہیں، ہماری جامعہ پنجاب، جامعہ کراچی اور قائداعظم یونیورسٹی میں آج بھی وہ اساتذہ اور محققین موجود ہیں جو ستاروں پر کمند ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، آئی ایس آئی کی حسن کارکردگی کا دشمن بھی قائل ہے۔ زمین ، پہاڑ، سمندر اپنے دامن میں زرخیزی سمیٹے ہوئے ہیں لیکن ہم ان سب نعمتوں سے استفادے میں نامراد کیوں؟ مدینہ منورہ کی ریاست کے بعد نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والا ملک پاکستان لیکن اشراف کے بجائے اشرافیہ ہی کی لاٹھی کیوں اور اسی کی ہی بھینس کیوں؟ 70 سال بعد بھی جمہوریت کیلئے آمریت کی محتاجی اور آمریت کیلئے جمہوریت کی دستیابی کیوں؟
سوال تو اور بھی بہت ہیں جو اپنے اندر آتش فشانیاں رکھتے ہیں۔کئی سوال جنرل ایوب سے متعلقہ ہیں اور کئی جنرل ضیاءالحق کے حوالے سے۔ کچھ سوالات براہ راست جنرل حمید گل اور جنرل پرویز مشرف سے تعلق رکھتے ہیں ، ایسے ہی سوالات کا تعلق جنرل (ر) شاہد عزیز ( مصنف " یہ خاموشی کہاں تک") اور جنرل (ر) اسد درانی (شریک مصنف حال ہی میں شائع شدہ متنازعہ کتاب "سپائی کرانیکلز") سے بھی ہے۔ لیکن ان سوالات کے جوابات متذکرہ لوگ تو نہیں دیں گے، ان جوابات کو آج کے نوجوان اور محقق کو دریافت اور تلاش کرنے پڑیں گے۔ اور ایسے کچھ چبھتے سوالات میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، اسفندیار ولی، محمود خان اچکزئی اور شاہد خاقان عباسی جیسے امیر کبیر سیاستدانوں کے سامنے بھی کھڑے ہیں جو جوابات چاہتے ہیں کہ، آپ سب کب، کیسے اور کس فارمولے سے اتنے "بڑے" بنے؟ہمارے ایک وزیر دوست نے رواں ماہ میں دو تین دفعہ یہ حکم دیا کہ، اس پر لکھیں کہ، سیاستدان کا تو آئے دن احتساب ہوتا ہے، کم از کم اسے احتساب اور حساب کتاب کا سامنا ہر الیکشن میں رہتا ہے تاہم جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کا احتساب کبھی ہوتا دکھائی نہیں دیتا! میں منسٹر صاحب کی اس بات کو جزوی سچ تسلیم کرلیتا ہوں مگر یہ پورا سچ نہیں۔ اس حوالے سے کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ان دنوں کی ایک مشہور اور معروف مثال جنوبی پنجاب کے سیاستدان جعفر لغاری کی ہے جو 1985 سے تاحال ہر برسراقتدار پارٹی میں شامل رہے اور نظریہ ضرورت کے تحت پارٹی بدلی اور ہر پارٹی میں کامیابی حاصل کی۔ جونیجو والی مسلم لیگ، پی پی، ملت پارٹی، ق لیگ ، ن لیگ اور حال ہی میں تحریک انصاف میں شمولیت! یہ سب کیا ہے؟ میں پارٹیاں بدلنے والوں کا بہت ذکر کرتا رہتا ہوں ، آج اتنا ہی کافی ہے۔ ہمارے ایک دوست سیاستدان کا پورا ٹبر پی ٹی آئی میں چلاگیا حالانکہ ماضی میں وہ بہت بڑے نظرئیے کے علمبردار تھے۔ اس نے وضاحت میں صاف کہا کہ، اگر ہم بظاہر جیتنے والی پارٹی کی طرف نہ گئے تو ہمارا سیاسی دھڑ اور دھڑا دونوں ہی دھڑن تختہ ہو جائیں گے۔ یہاں رک کر ایک بات پر غور کیجئے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، عموما عوام بھی پارٹی تبدیلی اور فلور کراسنگ کو مائنڈ نہیں کرتے، عوام بھی سیاسی ہوا کا رخ دیکھ کر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ ایسے میں ووٹ کو نظریاتی عزت دینا بھی کہاں آسان رہ جاتا ہے؟ لہذا یہاں تند نہیں تانی بگڑی ہوئی ہے۔ یہاں کوئی امریکی ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک طرز کی انسٹیٹیوشنل پارٹیاں ہیں نہ سکول آف تھاٹ۔ نہ یہاں برطانوی لیبر اور کنزرویٹو۔ یہاں بس ہے تو محرومیوں،امیدوں اور حرص کے درمیان ایک ٹرائی اینگل ! ذرا اس بات کی طرف بھی آجائیے کہ، اگر عمران خان میں اتنا ہی کرشمہ ہوتا یا اس کا سکول آف تھاٹ واقعی سیاسی دلکشی سے لبالب بھرا ہوتا ، تو انہیں انتخابی معرکہ آرائی میں الیکٹ ایبل اور "سلیکٹ ایبل" کی اتنی ضرورت ہی کیوں پڑتی؟ دوست منسٹر کی خدمت میں یہ بھی عرض ہے کہ، وہی بتادیں ان کے رفقاءوزراءمیں سے جتوئی صاحب اور پیر صدرالدین پگاڑہ نے اپنی وزارتوں سے کتنا انصاف کیا؟ مگر ووٹ دونوں ہی پھر ہزاروں ہی میں لے کر اسمبلی میں پہنچیں گے۔ ہمارے بھولے وزیر دوست خود یہی بتائیں کہ سینئر وزراءخود انہیں کتنی عزت و توقیر دیتے؟ ان کی رفاقت، پارٹی، ہم منصبی اور دیانتداری کو پس پشت رکھ کر صحت کی ایک وفاقی وزیر ان کا سچ سننے کے بجائے بیوروکریسی اور ٹیکنو کریسی کے جھوٹ پر یقین نہیں رکھتی رہی اور اوپر سے سے "تمغے" سے بھی نوازا گیا۔ بس رہنے ہی دیجئے سیاستدان بھی اس حمام میں اتنے ہی "زرق پوش" ہیں جتنے بیوروکریٹس اور جرنیل۔ واہ! عرش ملسیانی:
ہے دیکھنے والوں کو سنبھلنے کا اشارا
تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں
میں نہیں کہتا پلک جھپکتے انقلاب یا ارتقاءآجایا کرتے ہیں مگر حالات تو بدستور پیدا ہوتے رہتے ہیں بس تیرگی میں دیکھنے کو چشم بینا چاہئے۔ اور یہ پھر کہتا ہوں، وہ جو جمہوریت کے دلدادہ محققین ہیں یا وہ نوجوان جو قومی دھارے کا اہم اور معتبر حصہ ہیں ، اور کچھ ہو نہ ہو وہ آج کے وزرائے اعظم و وزراءاور ججوں و جرنیلوں کی "نقل وحرکت" سے سیکھیں کیونکہ سسٹم اس الیکشن 2018 میں نہیں کہیں آگے جاکر ٹھیک ہوگا۔ اگر سسٹم بھی ابھی بہتر ہونا ہوتا تو کوئی سابق وزیراعظم راز اور راگ نہ الاپتا، ڈنگ ٹپاو وزیراعظم بلا کی حکمت سے کام لیتا اور کوئی حالیہ ہردلعزیز لیڈر "سلیکٹ ایبل" کا محتاج نہ ہوتا، اوپر سے سابق جرنیلوں کی رسم گل کھلائی کا وہ موسم آپہنچا، کہ جسے فراموش کرنا ممکن نہیں۔ بقول اکبر حیدر آبادی:
مبہم تھے سب نقوش نقابوں کی دھند میں
چہرہ اک اور بھی پس چہرہ ضرور تھا
مجھے یاد آگیا کہ، جنرل(ر) شاہد عزیز کی کتاب " یہ خاموشی کہاں تک " مجھے برادر نعیم قاسم (کالم نگار) سے ملی، یہ وہ مسودہ تھا جو ابھی چھپا بھی نہیں تھا۔ میں نے جنرل (ر ) شاہد عزیز سے بات بھی کی اور اپنے نوائے وقت کالم میں سوال بھی اٹھایا کہ، سچ کا دورہ ریٹائرمنٹ کے بعد اور وہ بھی کسی حساس موقع ہی پر کیوں پڑتا ہے؟ آج کل جنرل (ر) شاہد عزیز کہیں باہر مقیم ہیں، شاید ایک مشہوری کے بعد موصوف کو یہی مطلوب تھا۔ اگر وہ قبلے کی درستی کے خواہاں تھے تو پھر رہتے ادھر اور حکم اذاں کیلئے کوئی سیاسی و سماجی پلیٹ فارم جوائن کرتے ؟؟ چلیں، مان لیا، مصلحتوں کے دور کے بعد سچ کے دورے کا بھی اثر ہوتا ہے بشرطیکہ کوئی قوم اثر لے۔ مگر وہ جنرل(ر) درانی کو کیا سوجھی کہ جناب شاہد عزیز سے دو ہاتھ آگے گئے۔ انہیں جی ایچ کیو سے سندیسہ تو آگیا ہے اب دیکھتے یہ ہیں کہ آئی جے آئی اپنے ہاتھ سے بناکر بےنظیر سیاست کا خاتمہ کرنے اور جمہوریت کو بےراہ روی کی شاہراہ پر چڑھانے کی پاداش میں سول کٹہرے کو مطلوب سابق جرنیل وہاں جی ایچ کیو میں کیا جواب دیتے ہیں ، اور جواب لینے والے کیا جواب لیتے ہیں کہ "سپائی کرانیکلز" کی مشترکہ پیشکش کی ضرورت کیا تھی؟ کہیں درانی صاحب بھی سویلین اور ملٹری "انخلاءپلس مشہوری" ہی کے طالب تو نہیں، جسے کہتے ہیں کبے کو لات راس آگئی ؟ یہ درست ہے کہ ماڈرن جمہوریت اور ترقی یافتہ ممالک میں وزرائے اعظم اور کئی سابق جرنیل اپنی یادداشتوں کو کتابی شکل میں مرتب کرتے ہیں مگر نہ خاص اور حساس مواقع پر اور نہ اپنی دھرتی کے نقصان اور دشمن کے فائدہ کے لئے، محض تاریخ کی دستاربندی کیلئے یا مستقبل کی رہنمائی کی خاطر، یہ نہیں کہ ، کسی غصے میں شعلے اگلیں یا کسی طلب میں قدم اٹھائیں یا جلتی پر تیل چھڑکیں۔۔۔ درانی صاحب کے اقدام سے پھر میاں نواز شریف کا ممبئی حملوں کا بیان زندہ ہوگیا۔ میاں نواز شریف کی منشاء تو پھر عنان اقتدار تھامنے کی کاوش ٹھہری لیکن جنرل (ر) درانی کس ڈگر پر چل نکلے۔ مطالعہ کتاب کے دیباچے نے مجھے تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ سابق بھارتی را سربراہ امرجیت سنگھ دلت اور سابق آئی ایس آئی سربراہ درانی پاک بھارت امن کو تقویت پہچانا چاہتے ہیں، کشمیر کا حل مطلوب و مقصود ہے۔ لیکن اپنے ذہن میں سوال ابھرا کہ، جب پوزیشن پر تھے کسی نے حل دیا؟ دلت صاحب! کسی نے کشمیر کے پانیوں کو موڑ کر، روک کر، ڈیم بنانے کے بھارتی عمل پر غور کیا کہ، پاک شادابیوں اور روانیوں کا گلا گھونٹ کر پاکستان کو بنجر کرنے درپے سلسلہ کس لئے؟ اور بین الاقوامی معاہدوں کا قلع قمع کیوں؟ ہاں اس کتاب میں کچھ اوپننگ سیکرٹ ہیں ان کے تذکرے کا فائدہ کیا؟ یہ چلے ہوئے کارتوس اب کچھ بھی نہیں لیکن ماضی میں تو کہا کرتے تھے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے۔ ہاں "سپائی کرانیکلز" سے آئی ایس آئی کی بڑائی ایک دفعہ پھر عالمی سطح پر ثابت ہوئی۔ مگر ہم نے حافظ سعید اور سانحہ ایبٹ آباد سے کیا نکالنا ہے؟ گرگل کا ری ایکشن آخر کیوں ضروری تھا کوئی سوچیئے تو؟ پیارے وزراء اور محققین! ڈیوڈسن کی "بٹریال آف انڈیا" 2017 ( ازسرِنو جائزہ ممبئی حملے) بھی تو پڑھئے!۔۔۔۔ سابق وزیر اعظم اور الوداعی وزیراعظم اپنے خطے کی حساسیت اور بھارتی دشمنی کے تناظر میں رازوں کے امین رہیں۔ یہی آج کی ضرورت ہے اور سابق جرنیلوں اور ججوں پر بھی یہی فرض ہے تاہم نئی نسل اور نوجوان محقق یہ سب فراموش نہ کرے تاکہ ہماری کم سنی بالغ نظری میں بدلے!
یوم تکبیر کی مبارک میں جرنیلوں، سیاستدانوں اور ججوں کا قومی چین ری ایکشن تھا اور وہی پھر درکار ہے، اور ویسے ہی محسن پاکستان بھی!