سولہ سال قبل بی جے پی نے اپنے عوام کو پاکستان دشمنی کا یقین دلانے کے لئے ایٹمی دھماکے کئے۔ جواب میں پاکستان نے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں حساب چکتا کردیا۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ آج وہی پارٹیاں پھر پاکستان اور بھارت میں برسراقتدار آچکی ہیں۔ نواز شریف نے تو ایک سال قبل وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا واجپائی کے جانشین نریندر مودی نے گزشتہ روز اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ نوازشریف اس تقریب میں شریک تھے۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ملاقاتیں بھی ہوئیں ۔تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کے ساتھ جتنی مرضی دوستی کی پینگیں بڑھا لیں، پاکستان کیخلاف بغض اور دشمنی کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ نریندر مودی کو زیادہ تر ووٹ بھی بغضِ پاکستان کی بدولت ملے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔!!دوسری طرف کانگریس جس نے بھی پاکستان دشمنی کو بام عروج تک پہنچایا تھا اور چانکیہ کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کو دولخت کیا تھا اس بار میدان میں اس لئے شکست کھا گئی کہ بی جے پی کے پاس پاکستان اور اسلام دشمنی کا شاید اس سے بھی بڑا پیکج موجود تھا۔ 1996ء میں اٹل بہاری واجپائی نے وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھتے ہی ایٹمی دھماکے کرنے کے احکامات دے دیئے۔ بھارتی سائنسدان تیار تھے مگر پھر بھی انہوں نے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا۔ واجپائی تڑپ اٹھے۔ غصے سے اسکے چہرے کی سلوٹیں اور بھی نمایاں ہوگئی تھیں۔ اس نے حکم دیا: جائو اور مکمل تیاری کی فوری اطلاع کرو۔ پوکھران میں پھر نقل وحمل شروع ہوگئی۔ مگر دوسری طرف بھارت کے سیاسی منظر نامے پر بھی ہلچل مچ گئی۔ اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تو بن گئے تھے مگر ان کی اقتدار کی کرسی کو دوسری پارٹیوں نے سہارا دے رکھا تھا۔ یہ سہارا کمزور ثابت ہوا اور اس سے قبل کہ بھارتی سیاستدان اور ایٹمی ادارے انہیں ’او۔ کے‘ رپورٹ دیتے انکی وزارت عظمیٰ کا بوریا بسترگول ہوگیا۔
دو سال بعد واجپائی پھر بھارتی وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے برسراقتدار آتے ہی ایٹمی دھماکوں کی فائل نکلوا لی۔ اس بار بھی انکی مخلوط حکومت تھی مگر پاکستان اور اسلام دشمنی میں چونکہ تمام ہندو پارٹیاں ایک ہیں، اس لئے انہیں اس معاملے میں اعتماد کا ووٹ لینے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ دوسری طرف پاکستان کو، جو متعدد مرتبہ امریکہ اور دنیا کی دوسری طاقتوں کو بھارتی ایٹمی اور توسیع پسندانہ عزائم سے آگاہ کرچکا تھا اور اس سلسلے میں انکے کردار کا منتظر تھا، اس وقت شدید دھچکا لگا جب پاکستان کے خدشات کو سنجیدہ نہ لیا گیا۔ کلنٹن انتظامیہ نے تو پاکستان کے خط کو محض پراپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور پاکستان کے تمام تحفظات کو وہم سمجھ کر جھٹک دیا۔ واشنگٹن اور برطانیہ نے واجپائی کی موشگافیوں کومحض سیاسی سٹنٹ خیال کیا تھا مگر اس وقت انکی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب 11مئی کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کردیئے۔ اس وقت انہیں پاکستان کی طرف سے خبرداری کے خطوط کی سچائی کا اندازہ ہوا۔ مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ مگر افسوس اس صورتحال میں انہوں نے بھارت کو دبائو میں لانے اوراسے اقتصادی اور سفارتی پابندیوں میں جکڑنے کی بجائے اپنا سارا زور پاکستان کے جوابی ایٹمی دھماکوں کو روکنے کیلئے لگا دیا۔پاکستان جو بھارتی سازشوں، کشمیر پر اس کے غاصبانہ قبضے اور سانحہ مشرقی پاکستان کے زخم کھانے کے بعد اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے کم از کم دفاعی صلاحیت کی پالیسی پر گامزن تھا، ایک نئی صورتحال سے دوچار ہوگیا۔ ملک کے اندر اور بھارت جوابی دھماکے کرنے یا نہ کرنے کی ایک اعصاب شکن بحث چھڑ گئی۔ پاکستان کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض بہت سی عالمی قوتوں نے مال ودولت کی پیش کش کی تو بہت سے نام نہاد لبرل ’’پاکستانیوں‘‘ نے اس موقع پر صبرو تحمل کا درس دیا۔ شکر ہے اس وقت کی قیادت جرم ضعیفی کی مرتکب نہیں ہوئی اور اس نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے جوابی ایٹمی دھماکے کرکے بھارتی زعم اور دھمکیوں کے غبارے سے ہوا نکال کے رکھ دی۔آج یوم تکبیر کا تقاضا ہے کہ ہم تمام اندرونی او ربیرونی سازشوں کے سامنے یکجا ہو جائیں۔ آپس کی لڑائیاں اور رنجشیں بھلا کر اپنی آزادی کا دفاع کریں۔ ہم نے ایٹمی دھماکے کرکے خطے میں تو توازن قائم کرلیا، لیکن ہماری آپس کی لڑائی اب بھی ہمیں عدم توازن سے دوچار کئے ہوئے ہے۔ وزیراعظم کا نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت مثبت عمل ہے تاہم بھارتی ہتھکنڈوں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بھارت سے دوستی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب وہ کشمیر، سیاچن، پانی اور دیگر تصفیہ طلب معاملات کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38