پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی کا اختیار نہیں : عدالت عظمی
اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صدر کے پاس چیئرمین نیب کے تقرر کا کوئی اختیار نہیں، صدر صرف وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہی کوئی تقرر کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے چیئرمین نیب فصیح بخاری کی تقرری کیخلاف چودھری نثار کی درخواست پر سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ صدر نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ وزیراعظم آن بورڈ ہیں، قائد حزب اختلاف رضا مند نہیں، اس لیے تقرر کیا جاتا ہے۔ چودھری نثار کے وکیل اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری پر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں ضروری اور بامعنی مشاورت نہیں ہوئی ایک نام تجویز کرنے کیلئے لکھا گیا خط مشاورت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس خط پر اپوزیشن لیڈر کے جواب کو غیر منطقی قرار دے دیا گیا ہے۔ چیئرمین نیب کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ درخواست کے ذریعے صدر کے عہدے کو گہنانے کی کوشش کی گئی، یہ رجحان ختم ہونا چاہیے ۔ جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا کہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق نہ ہو تو چیئرمین نیب کے تقرر کا کیا قانونی حل ہے؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایسی صورت میں چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ سینٹ کی کمیٹی کو بھجوا دیا جائے، معاملہ چیف جسٹس کو نہیں بھیجنا چاہیے۔ درخواست گزار چودھری نثار کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ چار عدالتی فیصلوں میں چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے چیف جسٹس کے کردار کا ذکر ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ان فیصلوں میں چیف جسٹس کا کردار ثالث کے طور پر دیا گیا۔ اپوزیشن لیڈر نے اپنے خط میں فصیح بخاری کے نام پر اعتراض نہیں اٹھایا۔ صدیوں کی روایت ہے کہ خاموشی کو رضامندی سمجھا جاتا ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ہر مقدمے کا فیصلہ کرنے والی آخری عدالت ہے اس لیے چیئرمین نیب کی تقرری کے معاملے میں عدلیہ کو شامل نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ سیف الرحمن کا دور واپس لانا چاہتے ہیں جب چیئرمین ججوں پر اثر انداز ہوتا تھا؟ جو شخص اب وزیراعظم بننے جا رہا ہے اس نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔ لطیف کھوسہ نے کہاکہ چیف جسٹس کی مشاورت کسی ریٹائرڈ جج کی تقرری کیلئے شاید مفید ثابت ہو تاہم ریٹائرڈ آرمی افسر یا گریڈ بائیس کے افسر سے متعلق چیف جسٹس کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ اب وقت تبدیل ہو چکا ہے۔ لطیف کھوسہ کے دلائل جاری تھے کہ سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدالتی سفارشات قانون کا درجہ رکھتی ہیں، پارلیمانی طرز حکومت میں وزیراعظم کو ہی چیف ایگزیکٹو کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ آن لائن کے مطابق سماعت کے دوران جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین کی تقرری سے متعلق چیف جسٹس سے مشاورت کا مقصد تقرری کو غیر متنازعہ بنانا ہے۔ پارلیمانی نظام میں صدر،وزیر اعظم کی سفارش کا پابندہے،اب ایک ایسے عہدہ کی سفارش کررہے ہیں جو غیر جانبدار ہونا چاہئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی کرنے کا اختیار نہیں،ہاں اختیارات میں اضافہ ضرور کر سکتی ہے۔ دیدار شاہ کیس میں چیف جسٹس کا کردار ثالث کے طور پر دیا گیا ہے۔ آرٹیکل176 کی رو سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کا ایک جبکہ ججز دوسرا حصہ ہیں ۔صدر نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نے وزیر اعظم کو تجویز کردہ نام کی مخالفت نہیں کی ۔صدر اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق ہوتو چیئرمین نیب کا معاملہ قانون نے حل کر دیا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کا ذکر برسبیل تذکرہ ہوا یہ سفارش یا ہدایت نہیں۔ جسٹس تصدق نے اکرم شیخ سے کہا کہ آپ کے نزدیک مشاورت کیا ہے؟۔ اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ بامعنی یا مقصد اور اتفاق رائے کے نکتہ نظر سے ہو تو اسے مشاورت کہا جا سکتا ہے۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اگر مشاورت میں اتفاق رائے نہ ہو تو چیئرمین نیب کا تقرر کیسے ہوگا؟۔ اکرم شیخ نے کہا کہ اس صورت میں معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجا جاتا ہے۔ اسفندیارولی کیس میں چیئرمین کی تقرری کے لئے چیف جسٹس کو کردار دیا گیا ہے۔ تقرری میں صدر کا کردار رسمی ہے۔ جسٹس جیلانی نے کہا کہ پارلیمانی نظام میں صدر، وزیراعظم کی سفارش کا پابند ہے۔