یوم تکبیر اور ایک ایٹمی طاقت کی ذمہ داریاں
ملک خداداد کو اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بنے آج پندرہ برس ہو گئے۔ ملک کی بقاءو سلامتی کی ضامن اس ایٹمی قوت کے حصول کے پس پردہ موجود قومی جذبے اور جذبات کو ہمہ وقت تروتازہ رکھنے کیلئے قوم ہر سال 28 مئی کو روایتی جوش و جذبے کے ساتھ یوم تکبیر مناتی ہے۔ آج ملک کا پندرہواں یوم تکبیر بھی پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی سرخوشی میں اور پاکستان کی سالمیت کیخلاف شروع دن سے گھناﺅنی سازشوں میں مصروف ازلی اور روایتی دشمن کو یہ احساس دلانے کیلئے منایا جا رہا ہے کہ وہ ہمیں ترنوالہ نہ سمجھے۔ یوم تکبیر کی مرکزی تقریب آج ایوان کارکنانِ لاہور میں صبح گیارہ بجے منعقد ہو رہی ہے جس میں وطن عزیز کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنیوالے وزیراعظم اور آئندہ بھی وزیراعظم میاں نواز شریف بطور مہمان خصوصی شرکت کرینگے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مجیدنظامی کی زیر صدارت منعقد ہونیوالی اس تقریب میں وطن عزیز کو درپیش چیلنجوں کے تناظر میں ملک کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے تحفظ و توسیع کے تقاضوں پر روشنی ڈالی جائیگی اور یوم تکبیر کی اہمیت کو اجاگر کیا جائیگا۔ میاں نواز شریف چند روز تک وزارت عظمیٰ کا منصب دوبارہ سنبھالنے والے ہیں اس لئے آج یوم تکبر کے موقع پر انہیں 28 مئی 1998ءکے دن کے ساتھ وابستہ اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ضرور سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ہم کس پس منظر میں ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس خطے میں ہمیں کس موذی دشمن سے پالا پڑا ہے اور وطن عزیز کی سالمیت کیخلاف اسکے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان کو کیا منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس 100 سے زائد ایٹمی وارہیڈز موجود ہیں‘ ان میں اضافے کی ضرورت نہیں لیکن ممکن ہو سکتی ہے اگر بھارت پاکستان کو دھمکانے کیلئے اپنے ہتھیاروں میں اضافہ کرتا چلا جائے۔بھارت کے ایٹمی دھماکوں سے 1998ءمیں طاقت کا توازن برباد ہوا۔ پاکستان‘ جس کے پاس کئی سالوں سے ایٹمی طاقت کے راز موجود تھے‘ صرف اس وقت دنیا میں ایٹمی طاقت کے طور پر ابھرا جب بھارت کی طرف سے یہ اشتعال انگیز حرکت کی گئی۔ اگر وطن عزیز ایٹمی قوت سے ہمکنار نہ ہوا ہوتا تو ہماری سالمیت کے درپے اس دشمن کے ہاتھوں ہم باقیماندہ پاکستان کو محفوظ بھی رکھ پاتے یا نہیں اور کیا اس دشمن کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل تک ہماری یکطرفہ دوستی کی گنجائش نکلتی ہے چہ جائیکہ کہ اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دیا جائے جبکہ جو قوم اپنے دشمن کے عزائم کو بھانپ کر بھی اور اسکے جارحانہ اقدامات کا سامنا کرتے ہوئے بھی اسکے معاملہ میں اپنی سلامتی کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہو‘ دنیا کی کوئی دوسری طاقت اسکی بقاءکے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ میاں نواز شریف کو بجا طور پر وطن عزیز کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنے کا کریڈٹ جاتا ہے مگر اب اس کریڈٹ کو نبھانا ان کیلئے اس سے بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ ہمارا روایتی دشمن آج خود کو دفاعی لحاظ سے ہم سے تین گنا مضبوط بنا چکا ہے۔ جس نے خود بھی 1974ءمیں پہلا ایٹمی دھماکہ کرکے اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی کا اعلان کیا اور پھر مئی 1998ءکے آغاز میں دوبارہ تین ایٹمی دھماکے کرکے اس خطہ میں اپنی برتری کی دھاک بٹھانے کی کوشش کی۔ اگر اس وقت میاں نواز شریف امریکی صدر کلنٹن کی پاکستان کو عالمی تنہائی میں پہنچانے کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر یا پانچ ارب ڈالر کی پیشکش قبول کرکے 28 مئی کو جوابی ایٹمی دھماکے نہ کرتے تو اندھی طاقت کے نشے میں جھومتا ہمارا یہ دشمن پڑوسی ملک ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے اب تک نہ جانے کیا کیا اقدامات اٹھا چکا ہوتا جبکہ اس وقت بھی وہ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور دیگر ایٹمی ممالک سے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے معاہدے کرکے اپنے پاس نہ صرف جدید ترین ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کے ڈھیر لگا چکا ہے بلکہ ایٹمی توانائی کے ذریعے سویلین پراجیکٹس بھی شروع کرنے میں ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ چاہے کنٹرول لائن پر سرحدی کشیدگی کا ماحول پیدا کرنا اور اسے فروغ دینے کیلئے‘ یا پھر پاکستان کی ہر ڈپلومیٹک کوشش کو رعونت سے ٹھکرانا‘ بھارت نے کسی موقع پر پاکستان کو بدنام کرنے سے گریز نہیں کیا۔آج بھی اپنی اسی ہٹ دھرمی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی سرکوبی کی صورت میں حالات سازگار ہونے سے پہلے وہ پاکستان کے دورے پر نہیں جائینگے جبکہ انکی مضبوط اپوزیشن بی جے پی ان سے بھی بڑھ کر پاکستان کے ساتھ دشمنی کے عزائم رکھتی ہے جس کے صدر سبرامنیم نے ابھی چند روز قبل ہی یہ درفنطنی چھوڑی ہے کہ کشمیر تو ہمارا اٹوٹ انگ ہے‘ اور ہم نے پاکستان کے قبضے میں موجود کشمیر کو بھی حاصل کرنا ہے۔ اس تناظر میں قوم کو اس وقت سخت مایوسی اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب میاں نواز شریف نے 11 مئی 2013ءکے انتخابات میں قوم سے دوبارہ اقتدار کا مینڈیٹ ملنے کے بعد بھارت کے ساتھ وارفتگی پر مبنی دوستی کی جانب چھلانگ لگاتے ہوئے نہ صرف یہ اعلان کر دیا کہ وہ مدعو کئے بغیر بھی بھارت کے دورے پر جانے کو تیار ہیں بلکہ قوم کو یہ ”مژدہ“ بھی سنا دیا کہ وہ بطور وزیراعظم اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم منموہن کو بھی مدعو کرینگے۔ وہ تو بھارتی وزیراعظم نے خود ہی اپنی برتری کے زعم میں میاں نواز شریف کی یہ دعوت ٹھکرا دی ورنہ قوم کو اپنے مقبول لیڈر کے ہاتھوں اس ہزیمت کا بھی سامنا کرنا پڑتا۔ میاں نواز شریف اب بھرپور قومی مینڈیٹ کے ساتھ ملک و قوم کی قیادت دوبارہ سنبھالنے والے ہیں تو انہیں ملک کے اصل دشمنوں کی صحیح پہچان کرتے ہوئے ملک کے تحفظ و سالمیت کی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی طے کرنا ہو گی جس میں ملک کی ایٹمی ٹیکنالوجی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ قوم کو سابق جرنیلی اور اسکے بعد منتخب جمہوری حکومت کے دور میں بھی اس حوالے سے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ ان ادوار میں یوم تکبیر کو میاں نواز شریف کے دور اقتدار کی نشانی سمجھ کر نہ صرف نظرانداز کیا جاتا رہا بلکہ ملک کی ایٹمی صلاحیتوں کو توسیع دینے سے بھی ہاتھ کھینچ لیا گیا اور لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں رکھے گئے چاغی پہاڑ کے ماڈل بھی بچگانہ ضد میں اتروا لئے گئے۔ جبکہ اب میاں نواز شریف بھی بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم کی فکر میں اپنے 28 مئی والے قومی اعزاز کو سنبھالنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ میاں نواز شریف کو آج یوم تکبیر کی تقریب میں اس حوالے سے اپنی قومی دفاعی پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس موقع پر ان تمام قومی ہیروز کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرنا ضروری ہے جو وطن عزیز کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنے میں معاون بنے۔ سب سے پہلے اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین منیراحمد خان نے اس نیک کام کا بیڑہ اٹھایا تھا جبکہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ءمیں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کی جانب سے ایٹمی توانائی کے حصول کی کاغذی منصوبہ بندی کو عملی شکل دی اور یہ اعلان کرکے دشمن کی صفوں میں کھلبلی پیدا کی کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے ہالینڈ میں موجود نوجوان پاکستانی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات حاصل کیں۔ انہیں سنٹری فیوجز کے حصول پر مامور کیا جنہوں نے ایٹمی سائنس دانوں کی مستعد ٹیم کے ارکان بشمول ڈاکٹر ثمرمبارک مند کی معاونت سے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کا کارنامہ سرانجام دے دیا جبکہ میاں نواز شریف کو 28 مئی 1998ءکو چاغی کے مقام پر ایٹمی بٹن دبا کر وطن عزیز کے ایٹمی قوت بننے کا اعلان کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ اعزاز بلاشبہ سالہا سال کی جدوجہد کا ثمر ہے‘ آج ہم ایٹمی قوت کی حیثیت سے اقوام عالم میں سرفراز ہوئے ہیں تو اس پر کسی حکومتی‘ سیاسی‘ عسکری شخصیت کی جانب سے ذمہ داری کا مظاہرہ بھی لازم ہے‘ نہ صرف پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کو شکست دینی ہو گی بلکہ اپنی معیشت‘ اپنے اندرونی انتشار اور سویلین اور ملٹری عہدیداروں کے درمیان آئینی ورکنگ ریلیشن شپ کو فروغ دینا ہو گا۔ ایٹمی طاقت نہ صرف دفاع‘ بلکہ پاکستان سے ایک باوقار اور Resource ful ملک ہونے کی علامت ہے۔آج کا دن اس ذمہ داری کو نبھائے رکھنے کی تجدید عہد کا متقاضی ہے۔