ڈاکٹر طاہر بھلر
قارئین ، کہنے اور کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے دعوے کرنا آسان ہوتا ہے اس پر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ امریکی صدر نکسن نے اپنی ایک کتاب جس کا عنوان تھا ،، لیڈرز،، لکھی اور اس میں اس نے یہ لکھا کہ لیڈرز میں جرات ہونی چاہیے اور وہ مرد بحران ہوتے ہیں۔ لیکن جب نکسن سے ایک انٹرویو میں کسی نے پوچھا کہ آپ نے واٹر گیٹ کے معاملے پر استعفا کیوں دیا ،آپ عوام کے پاس کیوں نہ گئے، آپ مواخذہ سے کیوں ڈرے۔آپ قوم کو ٹیلیوثین پر خطاب کرتے اور تمام حقائق بتا تے یا براہ راست عوام کو جلسوں پر خطاب کر کے اعتماد میںمیں لے سکتے تھے ۔ توصدر نکسن اس کا خاطر خواہ جواب نہ دے پائے اور استعفی دے کرجان کی امان پائی۔وہ ٹرمپ کی طرح یہ جرات رندانہ عملی طور نہ کر سکے یہ ہوتا ہے کہنے اور عمل کرنے میں فرق۔ باعین ہی ایسے ہی پاکستان جیسے ملکوں میں جبر کو سہنا کہیں مشکل ہے بہ نسبت امریکا جیسی ریاست کے ۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا امریکا جیسی ریاست کے اداروں نے بظاہر برداشت کا مظاہرہ کیا او ر ٹرمپ قاتلانہ حملے میں معجزانہ طور پر بچ نکلے اور پھر برسر اقتدار آ سکے ۔ تا ہم ٹرمپ کا بر سر عام ججوں کو للکارنا ان کی تظحیک کرنا ، مختلف محکموں جیسے یوایس ایڈ، تغلیم ، عدلیہ کی تطہیر کرنا، الیکشن اصلاحات اور امریکی تشخص کو بحال کرنے کا دعوی بلا شبہ تاریخی نہیں تو جرات مندانہ اقدام کی علامات تو ہیں ہی بلکہ امریکی تاریخ میں شائد پہلے عوامی امریکی رہنما کے بر سر اقتدار آنے کی علامات ہیں۔ا یسے لگتا ہے کی دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح امریکا میں بھی جمہوریت نام کی ہی تھی اور ڈیپ سٹیٹ جیسے ادارے ہی حکومتی سربراھ چنتے آ رہے ہیں۔ بقول خود ٹرمپ کے ، سٹیٹ اور عدلیہ جیسے اداروں کو ان کے خلاف استعمال کیا گیا اور انہوں نے اس کا مقابلہ کیا جو بقول ٹرمپ مریکا کی تاریخ میں شائد پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا ۔چھہ جنوری دو ہزار اکیس کو جب امریکی ایسٹبلشمنٹ جناب بائڈن کو صدر چننے، بنانے کے لئے اجلاس میں گنتی کر رہے تھے ، تو چند فٹ کے فاصلے پر ٹرمپ نے کیپیٹل ہل میں خطاب کر کے اپنے بلائے ہوے ہجوم کو اپنی جذباتی تقریر سے آنے والے صدر کی سینٹ اور قومی اسمبلی سے گنتی کے نتیجے میں چناو کو رد کرنے کااعلان ہی نہ کیا بلکہ اپنے خلاف دھاندلی کا الزام بھی لگایا۔ اپنے اس خطاب کے بعد مشتعل ہجوم جو بقول صدر ٹرمپ تمام امریکا سے آیا ہوا تھا ان کے ایوانوں کی توڑ پھوڑ کرتا ہوا اندر گھس گیا۔ بائڈن کے دور میں ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی کاروائی سے لے کر چار سال تک بقول ٹرمپ عدلیہ اور حکومت تمام کے اس کے خلاف ثبوت لا کر اس کو نااہل قرار دینے کے چکر میں تھے لیکن اس کی امریکیوں کے غیر ملکی تارکین وطن کیخلاف بیانات نے پکے گوروں کو اس کی حمائت میں لاکھڑا کیااور امریکی قوم کا ایک خاصہ طبقہ اس کے خلاف عدالتی کاروائی کو متعصبانہ سمجھنے لگا ۔ یاد رہے ٹر مپ سے پہلے دو سو سالوں میں کسی امریکی صدر نے اس طرح چھہ جنوری کو نئی آنے الی حکومت کو نہ مبارک باد دی بلکہ الیکشن کو مانے سے انکار کردیا اور الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ آج ٹرمپ جے ایف کے کی قتل کی دستاویزات کو کھول رہا ہے، تو مارٹن لوتھر کنگ ، جیفری ایپسٹین جیسے بند کیسوں کو عوام کے سامنے لا چکا ہے۔ اس کا کینیڈی کے قتل کے بارے یہ کہنا کہ کینیڈی کے قاتل کے مددگار اور لوگ ہیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ امریکی ڈیپ سٹیٹ کو ننگا کرنے کی جرات اس نے جان پر کھیل کر ،سنائپر سے قسمت سے بچ کر بقول ٹرمپ گولی کھا کر قسمت سے بچ کر کی ہے۔ آج اگر صدر ٹرمپ دنیا میں جنگوں کے خاتمے اور امن کو اپنی ترجیح قرار دے رہے ہیں اور اپنی میراث دنیا میں امن کی شکل قرار دے رہے ہیں تو اس پر غور ضرورت تو ہو گی۔ آج تیسری دنیا کے عوام اور ہمارے جیسے لکھاری اگر جناب ٹرمپ کو کریڈٹ دے رہے ہیں تو ٹرمپ کو تما م دنیا میں امن کی بنیاد ر کھنے پر سوچنا ہوگا اور پہلی حکومتوں کے مرتب کر دہ ورلڈ آرڈر کو تبدیل کرنے ہو گا تا کہ تمام دنیا اپنے اوپر مسلط شدہ جنگوں سے رہائی پا سکے اور ٹرمپ تمام دنیا میں امن کے پیامبر کے طور پرجانے جائیں اور یہی ان کے بقول ان کی میراث ہونی چاہئے۔جیسے وہ پہلے بھی کسی خطرے کو خاطر میں لائے بغیر ڈٹے رہے ، تما م دنیا ان سے امتیازی سلوک کی توقع نہیں رکھتی اور خدا ان کو ایک نئی انٹرنیشنل تعلقات کی بنیاو رکھنیکی ہمت اور سوچ دے ۔ وقت اس وقت ان کو موقع دے رہا ہے یہ وقت پل بھر میں جھپکتے ہی بدل جانا ہے ، ٹرمپ کو تاریخ پکار رہی ہے کہ وہ ایک دنیا کا پہلا صلح جو ، امن پسند اورتعصب سے پاک امریکی صدر بن کے دکھائے۔کیا مسٹر ٹرمپ چین کے چائو این لائی، ڈین سائو پنگ ،روس کے بورس یلسٹن کی طرح امن کی وراثت کو اثاثہ بنانے کے لئے عملی جدو جہدکا آغاز کر کے ایک عالمی لیڈر بن پائیں گے۔کیا ان کو اپنی سوچ کی زنجیروں کو صرف مختلف شکنجوں سے چھڑانا ہو گایا حماس اور یمن میں اسرائیل سے مل کر بمباری کر کے مظلوم مسلمانوں کا خون بہا نے سے اجتناب کرنا ہو گا۔ صرف اور صرف امریکی تشخص و مفادات کے لئے لڑنے والا جنگجورہنما یا اپنے زور بازو سے حاصل کی ہوی صدارت سے جناب ٹرمپ ایک خود مختار امن پسند رہنما کے طور پرعالمی نجات دہندہ بن کر تاریخ کے صفحات پر اپنا نام چھوڑنا چاہیں گے یا ایک امریکی کاروباری لیڈر بننے تک محدود رہیںگے۔ تاریخ کی کتاب ان کے سامنے کھلی پڑی ہے۔
کیا ٹرمپ امریکی تاریخ کے پہلے ،،عوامی رہنما،، ہیں
Mar 28, 2025