منگل‘ 6 رمضان المبارک 1444ھ‘ 28 مارچ 2023ئ

طالبان نے رمضان میں روزمرہ اشیاءپر کسٹم ڈیوٹی 80 فیصد کم کر دی
یہ ہوتے ہیں کرنے والے کام جو عوام کے دلوں میں حکومت کی محبت پیدا کرتے ہیں‘ احترام پیدا کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ طالبان حکومت سخت گیر رویوں کی حامل ہے۔ خواتین کے معاملے میں‘ تعلیم کے معاملے میں اور مذہبی معاملات میں ان کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ دیکھ لیں انصاف کی فراہمی بروقت سزا ﺅںاور اب رمضان المبارک میں اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں کمی کی طرح روزمرہ استعمال ہونے والے کھانے پینے کی اشیاءپر لاگو کسٹم ڈیوٹی میں 80 فیصد کمی کر کے طالبان حکومت نے جو احسن قدم اٹھایا ہے‘ اس پر ان کو داد ملنی چاہئے۔ عالمی تعلقات اپنی جگہ‘ طالبان اگر اپنے عوام کو آرام و سہولت فراہم کرتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اب کم از کم رمضان میں تو افغان عوام کو کم قیمت پر پھل اور سبزیاں دستیاب ہوں گی۔ مخالفین اسے اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی کہیں تو بہرحال نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ اسکے برعکس ذرا ہمارے ہاں دیکھ لیں‘ سبزیوں‘ پھلوں اور روزمرہ استعمال کی اشیاءکے دام سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ رمضان المبارک کے احترام میں بالکل ویسے جیسے اس ماہ مقدس میں نیکیوںکا اجر ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ تاجر بھلا کیوں پیچھے رہیں۔ انہوں نے قیمتوں میں سو گنا اضافہ کر کے اپنا منافع دوگنا تگنا کر لیاہے۔ یہی حال رہا تو کہیں ”وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ“ کے مصداق کہیں بے بس لوگ ”طالبان کے آنے کی دعا مانگتے ہیں۔ لوگ“ ہاتھ اٹھا کر ان جیسے حکمرانوں کی دعائیں نہ مانگنے لگ جائیں۔ ویسے بھی غریبوں‘ بھوکوں اور روزے داروں کی دعائیں کہتے ہیں جلد قبول ہوتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
جلسے سے مینار پاکستان کو ایک کروڑ 20 لاکھ کا نقصان
یہ تو ہر جلسے کے بعد تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کی وجہ سے وہاں کیا توڑ پھوڑ ہوئی کس کس چیز کو کتنا نقصان پہنچا۔ سٹیج اور لائیٹوں کی تنصیب کی وجہ سے ہونے والی تباہی نے اس تاریخی مقام کو کتنا خراب کیا۔ گھاس اور پودوں کا تو ذکر ہی نہیں کریں‘ وہ بے چارے تو ان سیاسی نعرے بازوں کے قدموں تلے یوں روندے جاتے ہیں جیسے آندھی طوفان اور بگولے کی وجہ سے ہری بھری فصل اجڑ جاتی ہے۔ اسکے علاوہ یہ تماشہ دیکھنے والے وہاں ٹنوں کے حساب سے کچرا چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ سب جاننے کے باوجود نجانے کیوں ہماری کوئی بھی حکومت اس تاریخی مقام پر جلسے جلوس منعقد کرنے پر پابندی کیوں نہیں لگاتی۔ اگر اسے کمائی کا ذریعہ بنانا ہے تو یہاں اجتماع کیلئے بھاری فیس مقرر کردے۔ اب یہ دیکھ لیں اس جلسے کے بعد یہاں کے پارکوں کی بحالی و تعمیرو مرمت پر ایک کروڑ 20 لاکھ روپے لگیں گے۔ اس حساب سے صرف اسی جماعت کو جلسے کی اجازت دی جائے جو کم از کم ایڈوانس 2 کروڑ روپے خرچہ جمع کرائے۔ حقیقت تو یہ ہے اس قومی تاریخی یادگار کو ایسے پروگراموں سے پاک رکھا جائے۔ اسکے تقدس کو نعرے بازی اور ڈھول ڈھمکوں سے پامال نہ کیا جائے۔ اس کا تقدس اور حسن برقرار رکھنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
٭٭٭٭٭
نارنگ میں مفت آٹا پوائنٹس سے 4389 تھیلے آٹا خورد برد: فوکل پرسن گرفتار
اب بتائیں کسی ایک جگہ سوراخ ہو تو اسے بند کریں بقول ....
جس جھولی میں سو چھید ہوئے
اس جھولی کا پھیلانا کیا
جب سارا دامن ہی چھلنی ہو تو کس سے گلہ کریں۔ کیا عجب لوگ ہیں ہم ایک طرف ناانصافی کے خلاف گلہ پھاڑ پھاڑ کر احتجاج کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہم خود ہر قسم کی ناانصافی کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ہمارا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ اب اگر حکومت نے آٹا مہنگا ہونے کی وجہ سے غریبوں کی سہولت کیلئے آٹا مفت فراہم کرنے کےلئے جو سیل پوائنٹس بنائے ہیں‘ اگر وہاں بھی لوٹ مار ہونے لگی تو پھر غریبوں کا حق ہے کہ وہ ذمہ داران کا گریبان پکڑیں۔ آخر کس بنیاد پر ایسے حرام خوروں کو فوکل پرسن بنایا جاتا ہے جو خود لٹیروں ہوں۔ نارنگ میں اگر 4389 تھیلے غائب ہو سکتے ہیں تو سوچیں بڑے شہروں اور دور دراز علاقوں میں جہاں چیک اینڈ بیلنس رکھنا مشکل ہوتا ہے‘ کیا کیا گل کھلائے جا رہے ہوں گے۔ ایسا ہی ایک گل کھلانے پر گزشتہ روز ایک دکان جو عام پرچون کی نہیں تھی بڑا سٹور تھا ‘پر چھاپہ پڑا تو وہاں مفت آٹے کے 100 تھیلے برآمد ہوئے جن کے کپڑے بدل کر ان کو قیمتاً فروخت کیا جا رہا تھا۔ اب یہ ظلم امریکہ یا اسرائیل والے تو نہیں کر رہے جن کو ہم ہر برائی کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ یہ سب نیکیاں ہمارے اپنے بھائی بند یعنی ہم خود کر رہے ہیں۔ تو پھر اس کا سختی سے سدباب کرنا بھی تو ہو گا۔ ورنہ غریب لائنوں میں لگے دم توڑتے رہیں گے اور بے شرم منافع خور یہ مفت آٹا بھی مہنگے داموں فروخت کرتے رہیں گے ۔
٭٭٭٭٭
آصف زرداری کی کراچی چڑیا گھر کی ہتھنی کا علاج کرانے کی ہدایت
ڈائنو سارز کے بعد اب ہاتھی اور گینڈے ہی رہ گئے ہیں جنہیں ان ماضی کے گمشدہ قصہ بنے ان عظیم الجثہ جانوروں کی باقیات کہا جاتا ہے۔ سمندری وہیل بھی ان میں شامل ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تینوں کی نسل معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔ انسانوں نے جس بے دردی سے ہاتھی، گینڈے اور وہیل کا شکار کیا ‘اپنی حیوانی یا شکاری جبلت کی تسکین کے لیے انہیں مارا۔ اس کے بعد اب چند دہائیوں سے حیوانی و جنگلی حیات کے ماہرین ان کی بقا کا سوال اٹھارہے ہیں اور انہوں نے ان کے تحفظ کی کوششیں شروع کردیں جس کی بدولت انہیں کچھ تحفظ ملا۔ ہاتھی اور گینڈا خشکی پر رہنے والے جانور ہیں۔ وہیل سمندر کی باسی ہے۔ اس لیے وہ کسی چڑیا گھر کی زینت نہیں بن سکتی کیونکہ اتنی بڑی جگہ کہیں بھی دستیاب نہیں۔ ہاں البتہ ہاتھی اور گینڈے کو حضرت انسان نے تفریح طبع کے لیے چڑیا گھروں میں لا کر رکھا ہواہے۔ باقی دنیاکے چڑیا گھروں میں ان کی حفاظت‘ ان کی خوراک ‘ان کے علاج معالجے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ انہیں فطری اورقدرتی ماحول دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ فرحاں و شاداں رہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے چڑیا گھروں میں چند ایک ہاتھی اور گینڈے موجود ہیں۔ انکی حالت ابتر ہے۔ ان کے علاج خوراک اور تحفظ کیلئے ملنے والا فنڈ یا رقم چڑیا گھر والوں کیلئے نعمت غیر مرقبہ ہوتی ہے کیونکہ یہ لاکھوں روپے ماہانہ ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ان کے پیٹ میں جاتی ہے۔ یہ بے چارے جانور جیل میں بند قیدیوں کی طرح بدتر زندگی کی قید کاٹتے نظر آتے ہیں۔ آئے روز کہیں نہ کہیں سے کسی شیر، ٹائیگر، تیندوے، چیتے، ہاتھی، گینڈے کے مرنے کی اطلاع ملتی ہے یا شدید بیماری کی۔ اب کراچی کے چڑیا گھر کی ہتھنی نور جہاں شدید بیمار ہے۔ میڈیا پر بات آئی تو انتظامیہ حرکت میں آئی مگر بات نہ بنی تو حکومت سندھ کو پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے ہدایت کی ہے کہ ذاتی پیسے سے اسکا علاج کرایا جائے۔ اس طرح شاید وہ بچ جائے ورنہ زرداری صاحب سے درخواست ہے کہ لاہور چڑیا گھر کی ہتھنی سوزی کی طرح اسے بھی ویت نام، تھائی لینڈ یا سری لنکا بھجوانے کا حکم دیں تاکہ وہ قید تنہائی سے نجات پائے اور قدرتی ماحول میں جی لے۔ وہاں اس کا بہتر علاج بھی ہو گا۔ کیونکہ وہ ہاتھی کو پوجتے ہیں انہیں خوراک دان کرتے ہیں جبکہ ہم وہ بھی کھا جاتے ہیں۔