ہفتہ‘ 3 ؍ شعبان 1441ھ‘ 28 مارچ 2020ء
خطرناک مجرم ساہیوال جیل توڑ کر فرار
فلموں ، ڈراموں میں تو ایسے مناظر ہوتے ہیں کہ سلطان راہی ہتھکڑی کو مروڑا دیتا ہے تو وہ کانچ کی چوڑی سے بھی زیادہ آسانی کے ساتھ ٹوٹ جاتی ہے، ہتھکڑی ٹوٹنے سے ’’ملزم‘‘ کے ہاتھوں پر خراش تک نہیں آئی ، حالانکہ چوڑی ٹوٹے تو بھی ہاتھوں کو ضرور زخمی کرتی ہے۔ فلموں، ڈراموں میں ایسا ہی معاملہ جیلوں سے ملزموں کے فرار ہونے کا ہے۔ وہ سپرنٹنڈنٹ جیل سمیت پورے عملے کو زچ کر دیتے ہیں اور آسانی کے ساتھ فرار ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی واقعہ گزشتہ روز سنٹرل جیل ساہیوال میں ہوا۔ جہاں قتل ، ڈکیتی اور اغوا جیسے سنگین مقدمات کا ملزم صدی محمد کٹر سے جیل کاٹ کر فرار ہو گیا جبکہ اس کے دو ساتھی بانس کی سیڑھی ٹوٹنے کے سبب فرار ہوتے ہوتے رہ گئے اور پکڑے گئے ، جس پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت 12 اہلکار معطل کر دئیے گئے۔ ملزم صدی محمد سابق صدر دیپالپور بار ایسوسی ایشن کے قتل میں بھی ملوث ہے۔ ساہیوال جیل بھی کسی فلم اور ڈرامے کی جیل ہی ثابت ہوئی ہے۔ حالانکہ جیلوں میں قیدیوں ، حوالاتیوں کو الگ الگ بیرکوں میں کئی تالے لگا کر رکھا جاتا ہے لیکن ساہیوال جیل کے لئے ایک مجرم کی ضرب ہی کاری ثابت ہوئی کیونکہ جیلوں کی سکیورٹی اتنی سخت ہوتی ہے کہ چڑیا پر نہیں مارتی اور جیل کے مین گیٹ سے لے کر آخری بیرک تک سکیورٹی کے کئی سخت ترین مراحل ہوتے ہیں۔ ویسے ہمارے محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کا دعویٰ ہے کہ دوسرے صوبے بھی پنجاب کی جیلوں میں سکیورٹی انتظامات کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ وہ ایسی فول پروف سکیورٹی کے مطابق اپنے اپنے صوبوں میں جیلوں کی سکیورٹی بہتر بناتے ہیں اگر یہی فول پروف سکیورٹی ہے کہ خطرناک قاتل ڈکیت آسانی سے فرار ہو جائے اور کسی جیل اہلکار کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ البتہ اس حد تک تو محکمہ جیل خانہ جات کا دعویٰ سچ نکلا کہ ’’جیلوں میں قیدیوں کو تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ‘‘ اسی لئے خطرناک مجرم کو جیل میں کٹر ’’فراہم‘‘ کیا گیا اور پھر فرار ہونے کی ’’سہولت‘‘ بھی دی گئی۔ ویسے اگر گوانتا ناموبے کی انتظامیہ اپنی سکیورٹی کے لئے محکمہ جیل خانہ پنجاب کے افسروں کے تجربات سے استفادہ کرے تو کئی قسم کے الزامات اور پیچیدگیوں سے بچ سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭
روپے کے مقابلے میں ڈالر ریکارڈ مہنگا
کرونا ایسا خوفناک وائرس ہے کہ جس نے انسانوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی معیشت کو بھی بری طرح ’’خوفزدہ‘‘ کر دیا ہے۔ گلی، محلے کی سبزی، پرچون کی دکان سے لے کر عالمی مارکیٹوں اور سٹاک ایکسچینجز تک سب بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ کرونا نے صرف ’’غریب‘‘ اور ’’شریف‘‘ ملکوں کی معیشتوں کو ہی ’’لکارا‘‘ ہے، ذرا ڈالر کی طرف منہ کر کے دیکھئے، روپے کا تو پہلے ہی بھٹہ بیٹھا ہوا تھا۔ اب اس کے مقابلے میں ڈالر 4.53 روپے اضافے کے بعد 166.13 روپے کا ہو گیا۔ کرونا تو جو کرے گا کرے گا، اب ڈالر پتہ نہیں ہمارے روپیہ کے ساتھ کیا کرے گا۔ پاکستانی کرنسی تو پہلے ہی ’’کرونا زدہ‘‘ تھی۔ کبھی ’’آئی سی یو‘‘ تو کبھی ’’آئسولیشن‘‘ میں ہوتی ہے۔ مشیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک بھی لگتا ہے کرونا وائرس کیخلاف محکمہ صحت کے ممدو معاون بنے ہوئے ہیں جبھی تو مناسب موقع کی تلاش میں بیٹھے ڈالر نے ’’عقابی اڑان‘‘ بھری ہے اور معیشت کی ’’فضا‘‘ میں روپیہ قلا بازیاںکھاتے ہوئے زمین پر آ رہا ہے۔ کرونا کیخلاف جنگ تو عالمی بن چکی ہے اور پاکستان میں بھی قومی جذبے سے اس کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ وزرائ، مشیر اپنے اپنے محکموں کی بھی خبر لیتے رہیں ایسا نہ ہو کہ ڈالر کرونا سے زیادہ نقصان کر جائے۔
٭٭٭٭٭
جہلاء کو عالم کا درجہ دینا تباہی ہے: فواد چودھری
لگتا ہے، وفاقی وزیرفواد چودھری اپنی وزارت (سائنس و ٹیکنالوجی) کے بارے میں سوجھ بوجھ رکھنے کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر بھی کافی دسترس رکھتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کہا ہے کہ ’’علماء اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں ، جہلاء کو عالم کا درجہ دینا تباہی ہے۔‘‘ ویسے بھی عالم اورجاہل ایک وسرے کا متضاد ہیں۔ جاہل کبھی تو بے علم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جبکہ ضدی اور ہٹ دھرم کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ ابوجہل بھی اسی وجہ سے ہی ہے۔ حالانکہ وہ پڑھا لکھا تھا اس کا نام عمرو بن ہشام تھا اور عرب اس کو ابو الحکم کہتے تھے لیکن وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث ابوجہل کے طور پر ہی بدنام ہوا۔ ’’نام صیغہ راز میں رکھنا‘‘ تو فواد چودھری کے مزاج ہی کے خلاف ہے۔ اب پتہ نہیں انہوں نے کس ’’عالم‘‘ اور کس قسم کے ’’جاہل‘‘ کی بات کی ہے حالانکہ صرف عالم دین ہی ’’عالم‘‘ نہیں ہوتا بلکہ ہر قسم کے دنیاوی علوم و فنون میں مہارت رکھنے والا بھی ’’عالم‘‘ ہی کہلاتا ہے اس لئے طب، سائنس و ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والا شخص بھی ’’عالم‘‘ ہی کہلائے گا اور یقیناً علماء دین کی طرح انسانیت کو فائدہ پہنچانے والے علوم میں مہارت رکھنے والا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت تصور ہو گا اپنی وزارت میں مہارت رکھنے کے باعث فوادچودھری بھی یقیناً نعمت ہیں لیکن ان سب کے مقابلے میں اگر کوئی شخص علم و عمل کے اعتبار سے کورا ہو اور پھر ضد اور ہٹ دھرمی پر بھی قائم ہو تو وہ واقعی جاہل ہوتا ہے زمانۂ جاہلیت کے ایک مشہور عربی شاعر عمرو بن کلثوم نے ایسے ہی جاہل کے مقابلے میں اپنی جہالت کا فخر سے اظہار کیا ہے کہ
الا لیجھلن احد علینا
فنجھل فوق جھل الجاھلین
خبردار کوئی شخص ہمارے مقابلے میں اپنی جہالت کا مظاہرہ نہ کرے، ایسا نہ ہو کہ ہم اس سے بڑے ضدی اور جاہل ثابت ہوں۔ اس شعر کا پنجابی میں عام فہم مطلب یوں ہے کہ ’’ضدنہ کر سوہنیا ، اسیں تے آپ بڑے ضدی آں‘‘۔ لگتا ہے چودھری فواد بھی اپنے مخاطب کو شرافت کی زبان میں یہی سمجھانا چاہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭