ساری دنیا جانتی ہے کہ کورونا وائرس ایک وبائی مرض ہے جس کی ذمے داری کسی ایک شخص یا کسی ایک ریاست پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ وبائی آفات کا مقابلہ سب انسانوں کو متحد ہوکر ہی کرنا پڑتا ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ امریکہ کورونا وائرس کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسکی ذمے داری چین پر ڈال رہا ہے۔ جس کا مقصد چین کو عالمی رائے عامہ کے سامنے بد نام کرنا ہے۔ چین کی قیادت نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے اس ہتھکنڈے سے باز رہے اور دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پاکستان میں بھی بعض عناصر کرونا وائرس کے نام پر اپنی سیاست چمکانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر چونکہ حفاظتی تدابیر اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے سے قاصر تھے لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کی پارلیمانی لیڈروں کو اعتماد میں لینے اور ان سے مشاورت کرنے کیلئے ایک کانفرنس طلب کی جائے جس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈر شامل ہوں اور کورونا وائرس کے بارے میں اپنی تجاویز پیش کریں تاکہ اس سلسلے میں قومی اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے اور پوری قوم متحد ہو کر اس وبائی آفت کا مقابلہ کر سکے۔ باجب وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی مناسب سمجھا کہ کورونا وائرس کے سلسلے میں حکومتی اقدامات کے بارے میں پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ ان کو اس بات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا کہ اس ویڈیو کانفرنس میں میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی شریک ہو رہے ہیں چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے اظہار خیال کرتے ہوئے شرکاء کو حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا اور اسکے بعد دوسرے اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے اٹھ کر چلے گئے۔
یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر وزیراعظم کو اس مشکل گھڑی میں یہ علم ہوتا کہ میاں شہباز شریف شریف اور بلاول بھٹو بھی کانفرنس سے خطاب کرینگے تو وہ ہر صورت ان کی بات سنتے۔ جب میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو علم ہوا کہ وزیراعظم اپنا خطاب کرکے اُٹھ کر چلے گئے ہیں تو انہوں نے وزیراعظم کے اس رویے پر احتجاج کرتے ہوئے کانفرنس سے واک آؤٹ کیا۔ تمام پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈروں کو یہ علم تھا کہ ویڈیو کانفرنس قومی اسمبلی کے سپیکر نے بلائی ہے اور وہی اس کانفرنس کی صدارت بھی کر رہے تھے اور سارا پاکستان اس کانفرنس میں دلچسپی لے رہا تھا تاکہ ان کے لیڈران تاریخ کے اس نازک موڑ پر کرونا وائرس جیسی موذی مرض کے سلسلے میں اتفاق رائے کر سکیں اور اسکے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کریں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر معمولی حالات کے باوجود میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے اجتماعی قومی مفاد کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر بلا جواز بائیکاٹ کر دیا جس کے پاکستان کے عوام پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ عوام پہلے ہی اپنے گھروں میں نظربند ہیں اور قدرتی آفت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور چاہتے کہ اس نازک لمحے پر انکے لیڈر حب الوطنی اور عوام دوستی کا مظاہرہ کریں۔
اپوزیشن کا یہ خیال ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے ابھی تک اپوزیشن کے بارے میں اپنا انتقام پر مبنی رویہ تبدیل نہیں کیا۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ ہر قسم کے تعصبات کو ختم کرکے پاکستان کی سلامتی اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کیلئے ایک ایکشن پلان بنایا جائے جسے پوری قوم کی تائید اور حمایت حاصل ہو۔ ان کا یہ خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو علم تھا کہ اس کانفرنس میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی شریک ہیں۔ حکومتی جماعت کے ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان کو کو اس کا علم نہیں تھا کیونکہ میاں شہباز شریف اور اور بلاول بھٹو نے آخری وقت میں اس کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا۔ ویڈیو کانفرنس کا سسٹم اس نوعیت کا تھا کہ وزیراعظم کو اس کانفرنس میں سارے شرکاء نظر نہیں آرہے تھے۔
پاکستان کے عوام کی دلی تمنا ہے کہ ان کے لیڈرکورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی پالیسی تشکیل دیں اور اس موذی مرض پر سیاسی نمبر سکور کرنے کی بجائے قومی اور عوامی خدمت کے جذبے سے کام کریں تاکہ پوری پاکستانی قوم مل کر اس انوکھی اور منفرد نوعیت کی جنگ میں سرخرو ہو سکے اور عوام کو عذاب سے نجات مل سکے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس سلسلے میں بڑے دل کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور متحد و منظم ہوکر اس قدرتی آفت کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر رفیق احمد رحلت فرما گئے ہیں اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم قیام پاکستان سے پہلے اسلامیہ کالج لاہورکے سٹوڈنٹ تھے اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پنجاب کے رکن کی حیثیت سے آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد آزادی میں میں فعال کردار ادا کرتے رہے تھے۔ اس تحریک کے دوران اسلامیہ کالج نے آزادی کے ایک اہم مورچہ کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ ڈاکٹر رفیق احمد 23 مارچ 1940ء کے اجلاس میں بھی شریک تھے جس میں پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ انہوں نے برطانیہ سے پی ایچ ڈی حاصل کی اور مادر علمی پنجاب یونیورسٹی اور بہاولپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ انہوں نے کئی یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھی۔ وہ پاکستان کے ماہر معیشت دان تھے۔ انسان سازی اور ادارہ سازی کیلئے ان کا کردار یادگار رہے گا۔ ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم جوہر شناس تھے انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین کیلئے ان کا انتخاب کیا۔ ڈاکٹر رفیق احمد دو قومی نظریہ کے عظیم علم بردار تھے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری جنرل شاہد رشید کے سرگرم اور پر عزم تعاون سے پاکستان کے لاکھوں طلباء کو نظریہ پاکستان کے شعور سے مرصع و مزین کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بانیان پاکستان پر تحقیقی کام کیا انہوں نے مختلف اخبارات میں بڑے معیاری آرٹیکل بھی لکھے۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں سے کئی تحقیق پر مبنی ہیں۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے ہمدرد شوریٰ میں بھی قابل ستائش کردار ادا کیا۔ وہ عظیم انسان تھے انہوں نے آخری سانس تک پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے کام کیا اور نظریہ پاکستان کو فروغ دیتے رہے۔ اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے اور انکے درجات بلند کرے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024