کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ کیا آپ ٹیلی ویژن چینلز دیکھ رہے ہیں، کیا آپ اخبارات کا مطالعہ کر رہے ہیں، کیا آپ سوشل میڈیا دیکھ رہے یا آپکو ان دنوں باہر نکلنے کا موقع ملا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں سڑکوں کنارے بیٹھے ہر عمر کے ضرورت مند کام کے منتظر ہیں، ریلوے سٹیشن پر قلیوں کی بڑی تعداد روزانہ ہی کمائی سے محروم ہو چکی ہیں۔ تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے روز صبح مقررہ مقامات پر جمع نظر آتے ہیں لیکن کوئی نہیں ہے۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی ایسے ہی یومیہ اجرت پر کام کرنے والے لاکھوں افراد کرونا وائرس کی وجہ سے گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ چونکہ کرونا عالمی وبا ہے کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں ہے۔ کوئی بڑا ہے یا چھوٹا، طاقتور ہے یا کمزور کرونا سب کو نشانہ بنا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لاک ڈاون اس سے بچنے کے لیے ہے لیکن لاک ڈاون کی وجہ سے بے بسی سے تکلیف دہ مناظر گلی گلی محلے محلے ہر چوک میں نظر آنے لگے ہیں۔ یہ حالات جہاں تکلیف دہ ہیں وہیں سبق آموز بھی ہیں۔ وہ سب جو اچھی قوت خرید رکھتے ہیں، اچھی تنخواہ حاصل کرتے ہیں، بڑے یا اچھے کاروبار رکھتے ہیں یا پھر ایسی صورتحال میں اپنے کاروبار یا دفتر نہ بھی جائیں تو زندگی رکتی نہیں ہے ان سب کے لیے یہ بیک وقت شکر ادا کرنے اور سبق حاصل کرنے کا مقام ہے۔ شکر اس لیے کہ وہ ایک بہتر زندگی گذار رہے ہیں انہیں ان مسائل کا سامنا نہیں ہے جس سے ملک کی بڑی آبادی گذر رہی ہے۔ سبق اس لیے ہے کہ ایسے حالات کسی پر بھی آ سکتے ہیں اور بہتر مالی حیثیت کے زعم میں رہنے کے بجائے ہر وقت دوسروں کی مدد کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ اگر دور رہنا سماجی ذمہ داری ہے تو ہر وقت ہوش میں رہ کر ضرورت مندوں کی مدد کرنا بھی سماجی ذمہ داری میں شامل ہے۔ عام زندگی میں ہم ہر وقت دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے، غیبت کرنے، حسد میں جلنے، راستہ روکنے، رکاوٹیں کھڑی کرنے اور غیر ضروری مقابلے میں لگے رہتے ہیں۔ دنیا کے طاقتوروں کو دیکھ لیں ان کے کیا حالات ہیں۔ ایک وائرس نے سب کی طاقت کو چیلنج کر دیا ہے، ہلا کر رکھ دیا ہے بے بس کر دیا ہے۔ یہی حقیقت ہے کہ انسان جب جب اختیارات سے تجاوز کرتا ہے، حدیں عبور کرتا ہے تو پھر ایسے وائرس ہی طاقت کے نشے کو ختم کرتے اور تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ کرونا نہ ہوتا تو نجانے کیا کہرام مچا ہوتا کہیں اسلحہ چل رہا ہوتا، کہیں کسی نئی جنگ کی تیاریاں ہو رہی ہوتیں، کہیں کوئی معاشی جنگ کی منصوبہ بندی ہو رہی ہوتی کہیں کسی کو گرانے، کچلنے اور تباہ و برباد کرنے کی حکمت عملی تیار ہو رہی ہوتی لیکن آج دنیا کا منظر نامہ ہی بدل چکا ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد لکھتے ہیں کہ انسان کی بہت سی بیماریوں کی وجہ اسکے جذبات و احساسات ہی ہیں۔ جب انسان عام زندگی میں حسد، نفرت، جلن اور دیگر منفی جذبات میں گھرا رہتا ہے تو وہ اپنے اندر انجانے میں لاتعداد بیماریوں کو جمع کر رہا ہوتا ہے۔ یہ منفی جذبات انسانی اعضاء کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ انکی وجہ سے بلڈ پریشر، شوگر، تیزابیت اور دیگر بیماریوں کا شکار بنتے ہیں۔ حسد، نفرت اور جلن ہی انسان کو بدلہ لینے پر ابھارتی ہے اور یہی جذبات جرائم کا باعث بنتے ہیں۔ ہم پاکستانی بلاوجہ ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں جبکہ ہم بحثیت مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ اصل طاقت، اقتدار و اختیار کا مالک اللہ ہے۔ جہاں تک کرونا وائرس کا تعلق ہے اسکی احتیاطی تدابیر پر عمل ضروری ہے لیکن ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی غور کریں تو آسانی سے سمجھ آتی ہے کہ پھر بھی وائرس کے حملے سے تحفظ کوئی ان دیکھی طاقت ہی کرتی ہے وہ اللہ کی ذات ہے۔ کرونا سے بچنے کے لیے جتنی سخت احتیاطی تدابیر ہیں ایک عام شخص سو فیصد کوشش کے باوجود اس پر عمل نہیں کر سکتا کہاں کہاں سے بچ سکتا ہے۔ کب تک گھر میں بند رہ سکتا ہے، کتنے کپڑے دھو سکتا ہے، کتنے لوگوں سے فاصلہ رکھ سکتا ہے، کتنی مرتبہ ہاتھ دھو سکتا ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود حتمی طاقت کوئی اور ہے یہی سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسان کا جسم اللہ تعالیٰ کی ایسی شاندار تخلیق ہے کہ سائنسی بنیاد پر سمجھا اور پرکھا جائے تو ایسی ایسی حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان سجدے میں گرے اور اٹھنے کی کوشش نہ کرے۔ انسانی جسم میں بیماریوں سے مقابلے کا ایسا خودکار نظام موجود ہے جو ہر وقت کئی بیماریوں کا خود ہی مقابلہ کرتا رہتا ہے۔ سانس، آنکھوں، کان اور منہ کے ذریعے نجانے کتنی مضر چیزیں ہر وقت انسانی جسم میں داخل ہوتی رہتی ہیں لیکن انسانی جسم ان مضر صحت چیزوں سے مقابلے کا خود کار نظام حرکت میں رہنے سے وہ بغیر ادویات کے ٹھیک ہوتا رہتا ہے۔ اگر ہم منفی جذبات سے گریز کریں مناسب خوراک لیں تو مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم خوراک کے معاملے میں بھی کمزور ہیں اور دیگر معاملات بھی فطری تقاضوں کے خلاف چلتے ہیں اس نتیجے میں بیماریوں کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جہاں تک تعلق کرونا وائرس کا ہے چونکہ یہ وائرس نیا ہے اور اس قسم کے وائرس سے انسانی جسم کا پالا نہیں پڑتا اور جسم کو ایسے وائرس کی عادت نہیں ہوتی تو اس کے مقابلے کا نظام موجود نہ ہونے سے انسانی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جب بھی ایسی کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کے مقابلے کے لئے انسانی جسم میں موجود خودکار نظام کو کچھ وقت درکار ہوتا ہے جب وہ وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو نقصان کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ کورٹیسون اس سارے عمل میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثبت اور نیکی کے کاموں پر دماغ انسانی جسم کو فوراً ایکشن کا حکم دیتا ہے جب کہ اس کے برعکس منفی اور نقصان پہنچانے والے جذبات کے بارے انسانی جسم میں ایک مکمل عمل موجود ہے جو خاصا وقت لیتا ہے یہی حقیقت ہے کہ فطرت مثبت اور نیکی کے کاموں کو سپورٹ کرتی ہے۔ تمام مصائب، مسائل اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنی بنیاد پر واپس آنا پڑے گا اور وہ بنیاد ہمیں اپنے مالک خالق کائنات سے جوڑتی ہے۔ وہی اول ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہی زندہ کرتا ہے وہی موت دیتا ہے، دوبارہ وہی زندہ کرے گا، وہی شفا دیتا ہے، وہی مشکلات کو ختم کرتا ہے، وہی آسانیاں پیدا کرتا ہے، وہی اندھیروں سے روشنیاں پیدا کرتا ہے۔ یہی حقیقت ہے۔ ان حقیقتوں کی موجودگی میں ہمیں علم حاصل کرنا چاہیے۔ غور و فکر پر زور دینا چاہیے۔ برداشت اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھے کاموں میں لگے رہنا چاہیے۔
قارئین کرام کرونا وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور بار بار بخشنے والے اللہ سے روزانہ دعا کریں کہ ہماری غلطیاں، کوتاہیاں معاف فرمائے اور دنیا کو اس جان لیوا بیماری سے نجات عطاء فرمائے۔ آمین
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024