دفتر خارجہ میں پلوامہ حملے کی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ پر اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفارت کاروں کو بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ کے دوران غیر ملکی سفارت کاروں سمیت اٹارنی جنرل، سیکرٹری خارجہ، سیکرٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے اس موقع پر موجود تھے۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان میں موجود غیر ملکی سفرا کو بتایا گیا کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی جانب سے ڈوزیئر 27 فروری کو موصول ہوا۔ پاکستان نے بھارتی ڈوزیئر موصول ہونے کے بعد ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی، تفتیش کے لیے بڑی تعداد میں گرفتاریاں کی گئیں، سماجی رابطے کی ویب سائٹز پر موجود مواد کا تکنیکی جائزہ لیا گیا جو بھارتی ڈوزیئر کی بنیاد تھا۔سفرا کو بتایا گیا کہ بھارت کی جانب سے موصول ہونے والے 91 صفحات پر مشتمل ڈوزیئر کے 6 حصے تھے جس میں حصہ نمبر 2 اور 3 پلوامہ حملے سے متعلق تھے جبکہ بقیہ حصے دیگر معمولی الزامات پر مشتمل تھے ۔شرکا کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ پاکستان نے پلوامہ حملے سے متعلق معلومات کو فوکس کیا، تکنیکی معاملات کو دیکھا اور سوشل میڈیا پر معلومات کا جائزہ بھی لیا، تحقیقات کے دوران معاملے کے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھا گیا۔دفتر خارجہ کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ حملہ آور عادل ڈار کے اعترافی ویڈیو بیان کا بھی جائزہ لیا گیا، جب کہ واٹس ایپ نمبر، ٹیلی گرام نمبر، ویڈیو میسجز، فن لوکیشن اور کالعدم تنظیموں کے کیمپس کے حوالے سے بھی تحقیقات کی گئیں ، فراہم کیے گئے تمام متعلقہ نمبرز پر سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں سے بھی تفصیلات طلب کیں،بریفنگ میں بتایا گیا کہ بھارت نے جن 22 مقامات کی نشاند ہی کی تھی ان کا بھی معائنہ کیا جا چکا ہے اور ان 22 مقامات پر کسی بھی قسم کے کیمپ کا وجود نہیں جبکہ اگر پاکستان سے درخواست کی گئی تو وہ ان مقامات کا دورہ بھی کرا سکتا ہے ، تحقیقات کے دوران 54 افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی تاہم ابھی تک ان کا پلوامہ حملے سے تعلق ثابت نہیں ہو سکا، مزید تحقیقات کے لیے بھارت سے مزید معلومات اور دستاویزات درکار ہیں، پاکستان پلوامہ حملے سے متعلق بھارتی الزامات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024