بدھ ‘ 10؍ رجب المرجب ‘ 1439 ھ ‘ 28 ؍ مارچ 2018ء
سیاستدانوں، ججوں اور جرنیلوں کا احتساب مکمل ہونے تک الیکشن موخر کئے جائیں: فیض علی چشتی
الیکشن موخر کرکے احتساب کی بات کرنے والے ہمارے اس بہادر نواب آف کالا باغ جیسی گھنی مونچھیں رکھنے والے ریٹائرڈ جنرل کی ساری بہادری اس وقت ہوا ہو گئی جب کسی صحافی نے ان سے صرف اتنا سا بے ضرر سوال پوچھ لیا کہ جناب کن ججوں اور جرنیلوں کا بھی احتساب ہو، جواب میں احتساب کا علم بغاوت بلند کرنے والے یہ آمریت پسند (ر) جنرل مونچھیں نیچی کرکے آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے پہلو بچا کر کھسک گئے۔ جن لوگوں کو مارشل لاء کی چاٹ لگی ہو جو خود بھی ملکی آئین کو پیروں تلے روند کر زبردستی گیارہ برس قوم کی گردنوں پر مسلط رہنے کے عادی ہوں‘ آج وہ کس منہ سے احتساب کی بات کرتے ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں ان پر اس وقت احتساب کا جنوں سوار ہے تو پھر ’’دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ‘‘ ہمت کریں بتا دیں کس کس جرنیل اور کس کس جج کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا پسند کریں گے۔ ورنہ نعرہ بازی پہلے بھی بہت ہوتی رہی ہے۔ اب بھی کرنے والے کرتے ہیں مگر جب عملی طور پر کچھ کرنے کا پوچھا جائے تو گنتی تک بھول جاتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے سیاستدانوں کے نام تو سب کو ازبر ہیں مگر باقی سب کے نام بھول جاتے ہیں یا نوک زباں پر لانے کی تاب نہیں رکھتے۔ اسلئے ایسے لوگوں کی باتوں پر دھیان دینے کی بجائے ہم سب کو اگلے الیکشن بروقت ہونے پر دھیان دینا چاہئے۔
٭…٭…٭…٭
مولانا فضل الرحمن، بلاول زرداری کی بلٹ پروف گاڑی میں رحیم یار خان پہنچے
اب مولانا غفور حیدری لاکھ وضاحتیں کرتے پھریں کہ مولانا بکے نہیں جھکے نہیں، مگر حقیقت حال چغلی کھا رہی ہے کہ مذہبی سیاست کرنے والوں کی انگلیاں ہمیشہ گھی میں اور سر کڑاہی میں رہا۔ وہ بکتے یا جھکتے نہیں مگر نوٹوں میں تلتے ضرور ہیں، اسی لئے تو نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے شکوہ بھی کیا تھا کہ آپ کے ممبران نے ہمیں ووٹ نہیں دیئے۔ سچ بھی یہی ہے۔ پورے 5 سال نواز شریف کی حکومت میں وزارت اور مشاورت کے مزے لوٹے ۔ جب دیکھا ان کا ٹائٹینک ڈوبنے والا ہے تو جھٹ زرداری کے سنہری بیڑے میں سوار ہو گئے۔ یوں ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ ان سے بھی مال وصول کیا۔ یہی ڈرامہ بلوچستان اسمبلی میں رچایا گیا تو جے یو آئی اس میں بھی شریک ہوئی تھی۔ اب مولانا فضل الرحمن کیا کہیں گے بلاول جی کی بلٹ پروف گاڑی میں اندرون سندھ کے دورے کی فضیلتوں کے بارے میں۔
اس دورے میں کراچی سے گھوٹکی تک مولانا صاحب سندھ کے عوام کو پیپلز پارٹی کے مصائب کے مقابلے میں جے یو آئی کے فضائل سناتے رہے۔ اپنی پارٹی کے لئے ووٹ مانگتے رہے، خود کو زرداریوں کے مقابلے میں مسائل حل کرانے والا نیا مسیحا قرار دیتے رہے۔ جبکہ تقریروں کے بعد مولانااسی زرداری کی ہی منگتی گاڑی میںبیٹھ کر مزے سے سفر کرتے رہے۔ اندرون خانہ حالت یہ ہے کہ مولانا میں زرداریوں کی بلٹ پروف گاڑی کے بغیر اندرون سندھ جانے کی ہمت بھی نہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نے بھی اپنا نیا سیاسی مرکز عمران خان کی طرح زرداری کی شکل میں دریافت کر لیا ہے۔
واپس نہیں آ رہا: مشرف نے رفقاء کو بتا دیا، سکیورٹی کا بہانہ نہ بنائیں: وزیر داخلہ
لیجئے ایک بارپھر سابق صدر مرد آہن کی پاکستان واپسی موخر ہو گئی۔ بہانہ یہ بنا یا کہ انہیں وزارت داخلہ کی سکیورٹی پر اعتماد نہیں تو جناب وزارت داخلہ والے تو کب سے …؎
میں گل بچھائوں کہ کلیاں بچھائوں بستر پر
وہ جلد آئیں گے یا دیر سے خدا جانے
والی کیفیت میں مبتلا ہیں۔اب دراصل مشرف صاحب کو جان کا خطرہ، نہیں سکیورٹی کا مسئلہ نہیں،اصل میں عدالتوں میں پیشیوں کا خوف لاحق ہے۔ اب تو عدالتیں ان کی پہلے والی گردن اور کمر کی بیماریوں کے ڈرامہ بازی سے بھی آگاہ ہوچکی ہیں۔ اب تو کسی صورت انہیں مزید ڈرامہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ سو اس خوف سے یہ نڈر کمانڈو جو سب کو مکے دکھاتا پھرتا تھا اب وطن واپسی سے پھر انکاری ہے۔ مگر کب تک۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ کبھی نہ کبھی تو انہیں واپس آنا ہی پڑے گا۔ مرضی سے نہ سہی زبردستی ہی سہی۔
وزارت داخلہ تو انہیں مکمل فول پروف سکیورٹی کے ساتھ عدالت میں لانے لے جانے کی پیشکش کر چکی ہے مگر مشرف جی ہیں کہ مانتے ہی نہیں۔ ان کی وہ ’’میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ‘‘ والی بانگ کہاں کھو گئی ہے۔
٭…٭…٭…٭
بھارتی سپریم کورٹ نے ایک سے زیادہ شادیوں اور حلالہ کا جائزہ لینے کے لئے بنچ قائم کر دیا
مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش تو بھارت میں عرصہ دراز سے ہو رہی ہے مگر اس میں مسلمانوں کی اپنی ریشہ دوانیوں اور مسلکی اختلافات نے بھی راہ ہموار کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی تین طلاقوں کے مسئلہ پر جو لاکھ اختلافی سہی مگرمسلمانوں کا اپنا مسئلہ تھا۔ بھارتی حکومت نے نہایت چالاکی سے عدالت کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلا دی اور بیک وقت تین طلاقوں پر پابندی لگوا دی۔ اس فیصلے کے خلاف لاکھوں مسلمان سڑکوں پر نکلے اور اسے مداخلت فی الدین قرار دیا مگر مخالف فقہہ والوںنے شادیانے بجائے۔ وہ یہ بھول گئے کہ مذہبی معاملات میں سپریم کورٹ کو اختیار دینا آگے چل کر کتنے بڑے مسائل و مصائب کا سبب بن سکتا ہے۔ سو اب اگلا رائونڈ تیار ہے۔ اب بھی اگر سب مسالک کے مسلمان مل کر حکومت اور عدالت پر دبائو ڈالتے کہ یہ مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے ،عدالت کو یا حکومت کو اس مداخلت کا اختیار نہیں تو اس طرح معاملہ دب سکتا ہے ۔ اب حکومت ایک سے زیادہ شادیوں کی آڑ میں مسلمانوں کی فیملی پلاننگ کا منصوبہ بنا چکی ہے۔
سپریم کورٹ اس کی معاون ہوگی۔ کیا معلوم جلد ہی ایک سے زیادہ شادی پر قانونی قدغن لگ جائے۔ پھر یہ مختلف مسالک والے کیا کریں گے کیونکہ 3 طلاقیں ایک ہیں یا نہیں اس پر تو اختلاف ہے مگر 4 شادیوں کے مسئلے پر تو سب متفق علیہ ہیں۔ مذہبی معاملات میں حکومت ہند اور بھارتی سپریم کورٹ کو راہ دینا پانی کے بند میں سوراخ کرنے کے مترادف ہے ۔ بھارتی انتہا پسند ہندوئوں کو تو پہلے ہی مسلمانوں کی کثرت ازدواج اور کثرت اولاد سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ ہندوستان میں ایک نیا اسلامستان نہ بنا لیں۔