نشہ خطرناک رجحان ہے ‘ مل کر ختم کرنا ہوگا ‘ پروفیسر محمد مسرور
کراچی (ہیلتھ رپورٹر)پاکستان میں کسی بھی نشے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نشے کو نشہ سمجھا ہی نہیں سمجھا جاتا، کوئی اشرافیہ میں جگہ بنانے کے لیے نشہ کرتا ہے، تو کوئی ورک پلیس، بچوں کی تعلیم، غربت یا گھریلو مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے ذہنی دبائو کو کم کرنے کے لیے نشہ کرتا ہے، درحقیقت کوئی بھی نشہ دماغ میںموجود ڈوپا مائن لیول بڑھادیتا ہے، جس سے عارضی طور پر خوشی کا احساس ہوتا ہے، نشے کے عادی افراد بھی ڈوپامین کا تناسب غیر متوازن ہونے کے باعث نفسیاتی امراض شیزوفرینیا ، پارکنسن اور الزائمر کے شکار ہوجاتے ہیں، یہ باتیں ماہرین صحت نے ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے اوجھا کیمپس میں منعقدہ چھٹی بین الا قوامی کا نفرنس برائے انڈورسنگ ہیلتھ سائنس ریسرچ (ICEHSR18) کی پری کانفرنس ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی، ورکشاپ سے پرو وائس چانسلر ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر ڈاکٹر محمد مسرور، پروفیسر ڈاکٹر زیبا حق، پروفیسر ڈاکٹر رضاالرحمٰن، بریگیڈئر شعیب احمد، پروفیسر ڈاکٹر ماہ جبین خان، ڈاکٹر سونیا، ڈاکٹر واش دیو اور ڈاکٹر صدف نے بھی خطاب کیا۔مقررین کا کہنا تھا کہ نشوں کو ماڈرن سوسائٹی کا نام دے کر پھیلایا جارہا ہے، مثلاََ ہیروئن کو اب ہیری (Herry) کہا جاتا ہے، آئس ، شیشہ، کرسٹل، بھی منشیات کی جدید شکلیں ہیں، جبکہ بھنگ، چرس، شماما، جمبلJumbul))، مارف(Morf)، بیر ہیزل ((Hazel، چائنا، سردائی، گٹکا اور دیگر نشوں کا رحجان بڑھتا جارہا ہے، ماہرین کا کہنا تھا کہ منشیا ت کے عادی افراد کی تعداد پوش ایریاز میں بڑھتی جارہی ہے، یہ ایک خطرناک رحجان ہے، انکی روک تھا م کے لیے والدین معاشرے کے سنجیدہ افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔