نالائق اورآوارہ بیٹے کو ’’نا خلف‘‘ اور ’’کپُوت‘‘ کہا جاتا ہے۔ جماعتِ اِسلامی کے بانی امیر مولانا مودودی مرحوم کے بیٹے حیدر فاروق مودودی نے ایک بار پھر ثابت کر دِیا ہے کہ ؎
وارثؔ شاہ نہ عادتاں جاندِیاں نیں
بھاویں کٹّیِے، پوریاں پوریاں نوں
ایک پرائیویٹ نیوز چینل پر 25 مارچ کی شب، مولانا مودودی کے ’’کپُوت‘‘ نے اپنی اوقات سے بڑھ کر مصّور پاکستان علاّمہ اقبالؒ اور بانی پاکستان حضرت قائدِاعظمؒ پر کیچڑ اُچھال کر اپنی مُنہ بولی آنٹی آنجہانی اِندرا گاندھی کی رُوح کو تو واقعی خُوش کر دِیا جب کہا کہ ’’پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد 1971ء میں دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا تھا‘‘۔ مولانا مودودی اگر آج زندہ ہوتے تو بھی اپنے ’’ پِسرِ بدلگام‘‘ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ دسمبر1970ء کے عام انتخابات سے پہلے (ماہ جولائی میں) حیدر فاروق مَودودی نے ایک ایسی حرکت کی تھی جِس سے مولانا مودودی اور اُن کی جماعتِ اِسلامی کو بہت زیادہ سیاسی نقصان پہنچا تھا۔ نذیر ناجی کی ادارت میں مولانا کوثر نیازی (مرحوم) کے ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ لاہور میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ مسٹر حیدر فاروق مودودی کی قادیانیوں کے ہیڈکوارٹر ’’ربوہ‘‘ حاضر ہونے کی رپورٹ شائع ہُوئی تھی۔ اُن دنوں مرزا ناصر احمد قادیانی جماعت کے ’’خلیفہ‘‘ تھے۔ پھر خبریں آئِیں کہ ’’حیدر فاروق مودودی کا ’’سماجی طبقہ‘‘ بدل گیا ہے‘‘۔
جماعتِ اِسلامی کی طرف سے ایک چھوٹا سا اعلان کِیا گیا تھاکہ ’’حیدر مودودی کے قادیانی جماعت سے رابطے کے بارے میں ہمیں کوئی عِلم نہیں ہے اور یہ کہ اُس کا جماعتِ اسلامی سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ مولانا مودودی نے شاید ’’شفقت ِپدری‘‘ کی وجہ سے بیٹے کو عاق نہیں کِیا تھا۔ حیدر فاروق کا اب بھی جماعتِ اِسلامی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُس کی کوئی مذہبی یا سیاسی پوزیشن بھی نہیں پھر نہ جانے کیوں اینکر پرسن نے اُسے بک بک کرنے کے لئے بُلا لیا؟ حیدر فاروق مودودی نے کہا کہ ’’جناحؒ صاحب کی منفی پالیسی کی وجہ سے ہندوستان دو حصّوں میں تقسیم ہو گیا‘‘ اور یہ بھی کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامِل نہیں تھے‘‘ اور جب ٹاک شو میں شامِل انصار عباسی صاحب نے حیدر مودودی سے پوچھا کہ ’’ہم‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آپ کے ساتھ وہ دوسرا شخص کون ہے ؟‘‘ تو وہ کھسیانی بِلّی کی طرح کھمبا نوچنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔ مولانا مودودی نے بھی یہی بات کہی تھی لیکن اُن کا انداز شائستہ تھا۔ مولانا مودودی نے اپنی ادارت میں شائع ہونے والے جریدہ ماہنامہ ’’ترجمان اُلقرآن‘‘ لاہور کے نومبر 1963ء کے شمارے میں لِکھا تھا کہ ’’ہم اِس بات کا کُھلے بندوں اعتراف کرتے ہیں کہ تقسیم مُلک کی جنگ سے ہم غیر متعلق رہے۔ اِس کارکردگی کا سہرا ہم صِرف مسلم لیگ کے سر باندھتے ہیں اور اِس میدان میں کِسی حِصّے کا اپنے آپ کو دعویدار نہیں سمجھتے‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا مودودی نے ’’قیامِ پاکستان‘‘ کی نہیں بلکہ ’’تقسیم ہند‘‘ کی اِصطلاح استعمال کی تھی۔
حیدر فاروق مودودی نے مولانا فضل الرحمان کے والد مولانا مُفتی محمود کی تقلیدکی ہے۔ مُفتی صاحب نے آغا شورش کاشمیری مرحوم کے گھر ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی موجودگی میں کہا تھا کہ ’’خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامِل نہیں تھے‘‘۔ اِس کے باوجود مولانا مُفتی محمود ’’گُناہ کی پیداوار‘‘ پاکستان کی سیاست میں لَت پَت رہے۔ قومی اسمبلی میں قائدِ اختلاف اور صوبہ سرحدکے وزیرِاعلیٰ مولانا فضل الرحمان بھی ’’اگر پدر نتواند پِسر تمام کُند‘‘ کے مِصداق ہر دور میں اقتدار کی گنگا میں اشنان کرتے رہے۔11 مئی 2013 ء کے عام انتخابات سے قبل مولانا فضل الرحمان نے جہاں بھی ’’اِسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ کے عنوان سے جلسہ کِیا ہر بار قیامِ پاکستان کے بارے میں بڑی باریکی سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو تین حِصّوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان پاکستان کے مسلمان اور بنگلہ دیش کے مسلمان‘‘ فاروق مودودی نے بھی یہی کہا کہ ’’ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں نہیں بلکہ دوسری بڑی اکثریت تھے اور اب پاکستان کے مسلمان جناح صاحب کی آواز پر لبیک کہنے سزا بھگت رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان تو خیر ایک مذہبی سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں۔ اتحادی سیاست کرتے ہیں۔ حکومت کوئی بھی سیاسی جماعت بنائے مولانا صاحب اُس سے ’’حِصّہ بقدرِ جُثہ‘‘ وصول کر لیتے ہیں۔ یہ الزام مناسب نہیں ہے کہ ’’مولانا فضل الرحمان ’’وصولی سیاست‘‘ کرتے ہیں۔ ’’کُچھ دو اور کُچھ لو‘‘ کے اصول پر عمل نہ ہو تو عبادت سمجھ کر سیاست تو نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ حیدر فاروق کِس کھیت کی مُولی ہے؟ کِسی پرانے ظفرؔ نے اپنے بارے میں کہا تھا…؎
’’کام جو کرتے ہیں بیہودہ ظفرؔ کرتے ہیں
ہرزہ گردی میں ہم اوقات بسر کرتے ہیں‘‘
مولانا مودودی تو ایسے نہیں تھے۔ یہ حیدر فاروق مودودی کِس پر گیا ہے؟ ’’ماں پر پوُت، پِتا پر گھوڑا‘‘ کی ضرب اُلمِثل کا کیا ہُوا؟ اب اِس جرسِ ہرزہ سرائی سے کون کہے کہ…؎
’’اے جرس ! کِس لئے یہ ہرزہ سرائی چُپ رہ‘‘
کُچھ لوگ مشہور ہونے کے لئے اُلٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ سڑک پر سر کے بَل بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہر کوئی ’’انعام گھر‘‘ والے مُلاّ تِین پیازہ کی طرح ذہین نہیں ہوتا۔ محض ’’کُوچی داڑھی‘‘ رکھنے سے تو مقبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ چاند پر خاک ڈالو گے تو مُنہ پر ہی پڑے گی۔ ممکن ہے کہ چاند کاکوئی چاہنے والا ٹُھکائی بھی کر دے؟ اِسی طرح کا ایک ’’فنکار ہرزہ سرا‘‘ اپنے ماموں کو بتا رہا تھا کہ ’’بدبخت نے مجھے مارا تو بہت لیکن مَیں نے بھی اُسے اتنی گالِیاں دِیں۔ اتنی گالِیاں دِیں کہ اُس کا کلیجہ چھلنی ہو گیا ہو گا‘‘۔ ایک پنجابی اکھان ہے کہ ’’ بٹیرے نہیں لڑ دے اُستاداں دے ہتّھ لڑدے نیں‘‘ اور جب کوئی بٹیرا ہار جائے تو اُس کے اُستاد کی کم بختی آ جاتی ہے۔ کبھی کبھی چھترول بھی خُوب ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حیدر فاروق مودودی کا وہ ’’ اُستاد‘‘ کون ہے؟ جِس نے اُ سے ؎
بَک رہا ہوں، جنُوں میں کیا کیا کُچھ!
کُچھ نہ سمجھے، خُدا کرے کوئی!
کی پوزیشن دِلوا دی ہے اور زبان و بیان کے خنجروں سے لیس کرکے کُھلا چھوڑ دیا؟ وہ کون ہے کہ جِس کے اشارے پر…؎
’’پِھر رہا ہے حیدرِ فاروق مودودی کُھلا‘‘