لاوا ابل رہا ہے
یار لوگ تو اب دو قومی نظریہ کی بھی با تصویر تشریح کر رہے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے اس دور میں بھی غریب عوام اگر بیمار پڑ جائیں تو انہیں چنگ چی رکشوں پر بیٹھ کر ہسپتال جانا پڑتا ہے لیکن دوسری طرف اس ملک کی رولنگ ایلیٹ کی بیگمات کے کپڑے بھی جہازی سائز سرکاری گاڑیوں میں دھوبی کی دکان سے گھر تک لائے جاتے ہیں تا کہ استری خراب نہ ہو۔ سچ کہا تھا شاعر نے :’اس طرف بھی آدمی ہیں، اس طرف بھی آدمی ۔انکے بوٹوں پر چمک ہے، انکے چہروں پر نہیں‘۔ یہ تفاوت ،تضاد اور طبقاتی امتیاز دیکھتے ہوئے کہنے والے کو تو یہ بھی کہنا پڑا تھا ایک طرف دیواریں بھی ریشم کے پردوں میں ملبوس ہیں اور دوسری طرف عام انسان کو تن ڈھانپنے کیلئے دھجی بھی میسر نہیں۔ 72 برسوں میں وطن عزیز میں مختلف نظام ہائے حکومت کے تجربات کیے گئے۔ پہلے 10 سال تو طوائف الملوکی اور اگلے 14برس چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹروں کی نذر ہو گئے۔اسکے بعد 19 دسمبر 1971ء سے 5مئی 1977ء تک اس ملک کے در و بام پر بھٹو حکومت رہی۔ 5مئی 1977ء سے 17 اگست 1988ء تک تیسری بار باوردی حکومت جاہ و جلال کے ساتھ عوام پر مسلط رہی۔ نومبر 1988ء سے 12 اکتوبر 1999ء تک پاکستان مسلم لیگ (ن ) اور پیپلزپارٹی کے مابین اقتدار کا اندھا یدھ دیکھنے میں آیا۔ دونوں جماعتوں کی قیادتوں نے دو دو بار وزارت عظمیٰ کا جوبن لوٹا۔ اسی پر بس نہیں اس دور میں ایک دوسرے پر رکیک اور غلیظ الزامات کی تیزابی بارش کی جاتی رہی۔ کیلنڈر پر 12 اکتوبر 1999ء کا ہندسہ نمودار ہوا تو جنرل پرویز مشرف بابو کی حکومت کا دھڑن تختہ کر چکے تھے۔ بابو 12 اکتوبر سے 9 دسمبر 2000ء تک ایک سال اور 27 دن کی قید بھی برداشت نہ کر سکا اور بڑوں کے مذاکرات کے نتیجے میں شریف فیملی کی جلاوطنی ہوئی۔ پھر دونوں بڑی پارٹیوں کے رضاکارانہ یا جبری جلا وطن سیاستدانوں کی وطن واپسی کا ایک معاہدہ ہوا۔ حقائق و حالات سے باخبر ارباب نظر جانتے ہیں کہ انہیں دنوں لندن کے مہنگے ترین علاقے میں مقیم رحمان ملک کی رہائش گاہ پر ماضی کی دونوں جارح ترین مخالف سیاسی جماعتیں مذاکرات کی میزپر بیٹھیں اور میثاق جمہورت پر دستخط کیے تھے۔ اس میثاق کی اولین شق یہ تھی کہ دونوں پارٹیوں میں سے جس پارٹی کو بھی ایوان اقتدار میں داخل ہونے کا موقع ملا تو سب سے پہلی ترجیح جنرل پرویز مشرف کے قائم کردہ احتسابی ادارے نیب کی بیخ کنی ہو گی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2008ء سے 2018 ء تک یہ دونوں بڑی جماعتیں میثاق جمہوریت کی اولین شق پر بال برابر بھی عمل درآمد سے قاصر رہیں۔ ہاں! اس دوران ایک اچھا منظر یہ ضرور دیکھنے میں آیا کہ جب 2014ء میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے شاہراہ دستور پر دھرنا دیا تو پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے یہ مؤقف اپنایا کہ ’پاکستان مسلم (ن) کی حکومت کا جمہوری و قانونی اور پارلیمانی حق ہے کہ وہ اپنا آئینی دورانیہ پورا کرے‘۔ اسی قسم کی آراء و افکار کا اظہار جے یو آئی ایف کے رہنما مولانا فضل الرحمن بھی کرتے رہے۔ 16 دسمبر 2014ء کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اے پی ایس پشاور سانحہ کے بعد دہشت گردوں کیخلاف قومی یگانگت کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ شومئی قسمت کہ آنے والے دنوں میں پانامہ پیپرز کا پنڈورا بکس جب کھلا تو پتا چلا کہ دنیا کے غریب ترین ملک پاکستان میں سیکڑوں ایسے امیر کبیر خواتین و حضرات موجود ہیں جن کی آف شور کمپنیاں ہیں۔ پانامہ پیپرز نے پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے کئی عہدیداران کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا۔
وقت کا پہیہ گردش کرتا رہا اور عمران کی عوامی مقبولیت کا گراف بلند ہوتا رہا۔ تآنکہ 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ ملک کی تمام پر انی سیاسی جماعتیں ان کے خلاف صف آرا اور سینہ سپر ہو گئیں۔ مہنگائی پر وایلا ،کرنسی کی قدر میں تخفیف پر اشک باری کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ پٹرول کے نرخ بڑھے تو محمد نوا زشریف نے کہا کہ عمران خان نے آدھی رات کو پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر ڈاکہ ڈالا۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بنا کر مہنگائی مکاؤ مارچ کئے گئے۔10 اپریل 2022ء کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے دعویٰ کیا کہ وہ عوام کو ریلیف دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ تقریباً 12ہفتے ہونے کو آتے ہیں ۔ ایک بھی دعویٰ پورا نہیں ہوا، البتہ حکمران طبقات کے کیسز اور نیب کے پر کاٹے غانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ پٹرول کے نرخ 150 سے 235کر دیے گئے ہیں۔ عمران پر الزام تھا کہ ’وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے گا ، بھارت سے تعلقات قائم کریگا ‘لیکن یہ الزامات غلط ثابت ہوئے۔ میاں محمد نواز شریف کے سیاسی اتالیق حسین حقانی جن سے فروری 2022ء میں انکے تعلقات دوبارہ بحال ہو چکے ہیں، برملا کہہ رہے ہیں کہ ’نیو کلیئر اثاثوں سے دستبرداری میں کوئی حرج نہیں‘۔ ادھر پیپلزپارٹی کے رہنما سلیم مانڈوی والا سے منسوب یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں‘۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو ڈنکے کی چوٹ کہہ رہے ہیں ’بھارت سے غیر مشروط تعلقات میں کوئی حرج نہیں‘، مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال فرما رہے ہیں ’کرپشن ہر ملک میں ہوتی ہے اور (ن) لیگ کے ایڈم سمتھ جناب مفتاح اسماعیل تو سب پر بازی لے گئے ، وہ پٹرول کے نرخوں میں مزید اضافے کا اعلان اس خوش فہمی میں کر رہے ہیں کہ ’پٹرول مہنگا ہونے پر چونکہ کوئی باہر نہیں نکلا لہٰذا عوام کا مزید خون نچوڑنے میں کوئی حرج نہیں‘۔ الغرض کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ حالات بد سے بدترین ہو گئے ہیں۔عوام سکتے کی حالت میں ہیں۔ لاوا آتش فشاں کے سینے میں ابل رہا ہے۔