سری لنکا کی صورتحال پاکستان میں اضطراب کیوں؟

موجودہ دور میں وہی ممالک ترقی کرتے ہیں جن کی معیشت مضبوط ہو‘صنعت و تجارت سرمایہ کاری کا گراف اوپر جا رہا ہو اور زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملکی معیشت قرضوں کی بجائے اپنے ذرائع اور وسائل سے چل رہی ہو۔ اگر صورتحال اسکے برعکس ہو جائے تو پھر سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ اس وقت شدید ترین مالی بحران کا شکار ہوکر دیوالیہ ہونے والا سری لنکا چند سال پہلے تک ایک خوشحال ملک تھا لیکن مالی اور انتظامی کمزوریوں‘ناقص پالیسیوں اور قدرتی آفات نے اس ہنستے بستے ملک کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات میں ریکارڈ کمی ہونے لگی‘ کورونا کی وجہ سے سری لنکا سیاحت سے حاصل ہونے والی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگی نہ کرنے پر عالمی مہاجنوں کا دباؤ بڑھنے لگا‘ سرمایہ کاری اور صنعتوں کا پہیہ رک گیا۔ اس سے ملک کی مجموعی صنعتی اور زرعی پیداوار بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس مالی بحران کی وجہ سے سری لنکا کی کرنسی کی قدر میں نمایاں کمی ہوگئی۔ صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ عوام کی بنکوں میں جمع رقوم کی قدرکی شدید قلت ہوئی‘کاغذ کی قیمتوں میں اضافے اور اس کی عدم دستیابی کی وجہ سے تعلیمی شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔ توانائی کے بحران‘ اشیائے ضروریہ کی کمیابی اور مہنگائی نے عوام کو سڑکوں پر آنے پر مجبورکر دیا اور پھرسری لنکا بھر میں نہ ختم ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
سری لنکا کے اس بحران کی وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہمارے عوام پاکستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو ان میں خوف ‘ ڈر‘ بے یقینی‘ بے چینی‘ مایوسی اور اضطراب کا پایا جانا قدرتی امر ہے۔ عوام کو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی معیشت غیرملکی قرضوں کے سہارے چل رہی ہے اور آئی ایم ایف ہمیں ’’ڈومور ڈومور‘‘جیسے احکامات جاری کر رہا ہے اور ہم ان کی تمام سخت شرائط ’’بلاچون و چرا‘‘ مان کر‘ عوام پر پٹرول بجلی گیس اور مہنگائی کے بم بھی گرا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ہمیں قرضے کی قسط جاری کرنے پر راضی نہیں ہو رہا۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ ’’جس نے ادھار (قرض) لیا اس کی ٹکے کی بھی عزت نہیں رہتی اور اس کو کوئی منہ بھی نہیں لگاتا‘‘۔ ’’ سیانوں کے اس اکھان‘‘کے مطابق قرض کی لت (عادت) پڑ جانے کی وجہ سے ہماری خودداری‘ وقار اور عزت خاک میں مل چکی ہے اور اب آئی ایم ایف یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ پٹرول پر لیوی اور سیلز ٹیکس بھی لگایا جائے۔ جب سے ہم آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسے ہیں ہمارے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ قرضوں میں جکڑے اس ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں ایک دانشور وفاقی وزیر ’’قرضہ ٹریپ‘‘ کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ فرماتے ہیں کہ اگلے مالی سال 2022-23ء میں 4 ہزار ارب روپے کا قرضوں پر سود کہاں سے ادا کریں گے۔ یاد رہے کہ 2018ء میں یہ سود صرف 1499 ارب روپے تھا لیکن ہماری ناقص مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے صرف 4 سال سے بھی کم عرصہ میں یہ سود دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا۔ یہ تو صرف سود کی بات ہو رہی ہے ملک پر قرضوں کے بوجھ کا حجم دیکھ کر تو ’’کلیجہ منہ کو آتا ہے‘‘دوسری طرف ہمارے پاس ڈالر کے ذخائر میں بھی ریکارڈ کمی ہو رہی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ روپے کی قدر مسلسل کم ہونے سے موجودہ قرضوں کی مالیت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یقیناً پاکستان کو ڈالر سے جڑے ہونے کا خرچہ ہرجانہ اور جرمانہ بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے وفاقی وزیر خزانہ فرماتے ہیں کہ قرض پر ’’سود کی ادائیگی اور انرجی سیکٹر کو دی جانے والی سبسڈیز ہمارے بھاری خرچے ہیں۔ شائد انہوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تینوں بار مسکراتے ہوئے ریکارڈ اضافے کا اعلان کیا۔ ہمارے وزیر خزانہ صاحب اپوزیشن کے زمانے کی اپنی ساری باتیں بھول چکے ہیں اور عوام کو ’’رگڑا‘‘ لگا کر بھی ’’حسن کارکردگی‘‘کی باتیں کرتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے موجودہ حکومت نے قرض کی ایک معمولی قسط کی خاطر قوم کی خوداری اور وقارکو داؤ پر لگا دیا ہے ہمارے حکمران یہ بات شائد بھول گئے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی ہر ماہ 2 ارب 50 کروڑ ڈالر ملک کے خزانے میں بھیج رہے ہیں جو آئی ایم ایف کی ’’مونگ پھلی کے دانے‘‘ کے برابر سخت شرائط میں لپٹی قسط سے کئی گنا ہے۔ اگر ہم آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے اپنے سمندر پار پاکستانیوں سے رابطہ کرتے‘ ان کے مسائل کو حل کرنے اور انکے مطالبات پورے کر دیتے تو وہ وطن سے اپنی محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مونگ پھلی کے دانے کی محتاجی اور خیرات سے ہمیں بچا لیتے لیکن کیا کیا جائے ہمارے سب حکمرانوں کو ’’کشکول گدائی‘‘ سے اس قدر پیار ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو قرضوں کے دلدل سے نکالنے کیلئے شعوری طور پرکوشش ہی نہیں کی۔ کرسی کرسی کی گیم کھیلی اور اپنی باری مکمل ہونے پر یہ جاوہ جا۔ یہ اب خادم پاکستان کہلانے والے وزیراعظم کا فرض بنتا ہے کہ وہ ملک کو قرضوں سے نجات دلانے اور موجودہ قرضوں کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں۔ بجلی کے 2500 ارب روپے کے گردشی قرضے اور گیس کے1500 ارب گردشی قرضوں سمیت گیس اور بجلی کے نرخ کم کرنے اور دیگر معاملات پر آئی پی پی سے فیصلہ کن مذاکرات کریں۔ (جاری)