اداروں کی تباہی ،ڈاکٹر محمود شوکت کا ذاتی تجربہ

یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے تاروپود بری طرح بکھر چکے ہیں۔ کسی بھی شعبہ زندگی پر نظر ڈالیں تو کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی ۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ۔ ہمیں آزادی ملے پچھتر برس گزر چکے لیکن ہما را ذہن ابھی تک غلام کا غلام ہی ہے، ہم وڈیرا شاہی اور افسر شاہی کے غلام ہیں۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک چاند اور مریخ کی خبریں لا رہے ہیں اور ہم پاتال میں دھنستے چلے جا رہے ہیں ۔جنوبی کوریا نے ہمارے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کی نقالی کی اوروہ ایشیائی ٹائیگر بن گیا ۔سنگا پور ہمارے چیچہ وطنی سے چھوٹا ملک ہے لیکن اس کی ترقی کا گراف بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔چین ہمارے بعد آزاد ہوا لیکن آج وہ ایک سپر طاقت بن چکا ہے۔بنگلہ دیش نے ہماری کوکھ سے جنم لیا اور آج اس کا جی ڈی پی پاکستان سے زیادہ ہے ۔ ہماری زبوں حالی اور گراوٹ کا سبب ہر ایک پر واضح ہے لیکن آج بھی کوئی معاشرے کو سدھارنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ایک حکومت جاتی ہے دوسری آتی ہے تو معیشت کی تباہی کی ساری ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈال دیتی ہے ۔ہم تھانہ کلچر اور پٹوار کلچر سے نجات کے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن ان کے چنگل میں بری طرح گرفتار ہیں ۔
ہمارا دفتری بابو ہمارے اوپر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح حکومت کرتا ہے۔اور کلر ک بادشاہ کے سامنے کسی کی نہیں چلتی ۔جس کو کسی منصب پر بٹھا دو وہ اپنے آپ کو طومار خان سمجھتا ہے اور چام کے دام چلاتا ہے ۔دیگ کا ایک دانہ چکھنے سے اس کے ذائقے کا پتا چل جاتا ہے ۔ ہمارے دوست ڈاکٹر محمود شوکت کے ساتھ ایک عجیب واردات ہوئی ۔جسے انہوں نے میرے نام ایک خط میں لکھ کر بھیجا ہے ۔ڈاکٹر محمود شوکت کا نام میرے قارئین کے لیے اجنبی نہیں ۔وہ اس ملک برکت علی کے پوتے ہیں جو متحدہ پنجاب اسمبلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے واحد منتخب ممبر تھے ۔یہ اعزاز ہر کسی کو حاصل نہیں ۔ لیکن خود ڈاکٹر محمود شوکت بھی کمال کی شخصیت ہیں ،وہ لاہور کے میگا ہسپتالوں میں ایم ایس رہے ۔ہیلتھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی بنے ۔وہ پنجاب میں کورونا کمیٹی کے اعزازی سربراہ بھی تھے ۔لیکن پھر انہیں فٹبال کی طرح استعمال کیا گیا ۔کہنے کو انہیں میو ہسپتال کی گورننگ باڈی کا چیئر مین لگایا گیا لیکن ان کی لگام ایک ایسے شخص نے سنبھال لی جو امریکی شہری ہے ۔اس نے ذاتی عنا دکی خاطر ایک ادارے کے انتظامی نظام کو اتھل پتھل کردیا ۔آئیے میرے نام ڈاکٹر محمود شوکت کا خط ملاحظہ فرمائیں ،وہ لکھتے ہیں کہ
’’ نظام کا لفظ پاکستان میں رائج ہمارے انداز حکمرانی اور سیاست سمیت کسی بھی مروجہ کاروبار زندگی کے لیے استعمال کیا ہی نہیں جا سکتا۔ہر حکومت اور دور میں اپنی خواہشات کے مطابق ایک ٹوٹا پھوٹا طریق کار وضع کر لیتے ہیںجو ہمیں مسلسل پیچھے دھکیلتا رہتا ہے۔کسی دور میں کچھ چیزیں بہتر بھی ہو جاتی ہیں اور کچھ پہلے سے بھی خراب ۔ عمومی طور پرعوام صرف حکمرانوں کی تجویز کردہ کڑوی گولیاں کھاتے اور '' مشکل فیصلوں'' کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔اشرافیہ کے حصے میں ہمیشہ خوش قسمتی آتی رہی۔
لوگ ایک رنگین اور بہتر مستقبل کے دکھائے گئے خوابوں میں لاہور میں پیرس اور یورپ بننے کی امیدیں لگائے زندگیاں گزار دیتے ہیںاور نسل در نسل غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلے جاتے ہیں۔ اس خرافات میں سب سے زیادہ انحطاط ہمارے تعلیمی اور معاشرتی شعبے میں ہواہے۔تعلیمی انحطاط کی دلدوز کہانی ایک لمبی داستان ہے۔
معاشرتی سطح پر آنے والے تمام حکمران ،سیاستدانوں اورمنتظمین نے ذاتی اور شخصی وفاداری کا کلچر نہ صرف متعارف کروایا ہے بلکہ اس طریقے سے مسلط کیا ہے کہ ملک کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔بظاہر جو جمہوریت کے گن گانے والے اور عوام کی خدمت کے دعوے دار کسی بھی سطح پر مثبت اختلاف رائے برداشت نہیں کر سکتے۔کسی بھی مثبت تجویز کو صرف نا فرمانی اور مخالفانہ رویہ تصور کرتے ہو ئے نہ صرف رد کر دیا جاتا ہے بلکہ ایک جرم مانا جاتا ہے۔حالانکہ کسی بھی معاشرے اور حکومت میں تکنیکی ماہرین کو بغیر کسی سیاسی وابستگی کے اپنا کام جاری رکھنا ہوتا ہے اور انہی کی تجاویز پر مختلف محکموںکی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔
لیکن کچھ عرصے سے ان ماہرین کو بھی ہمارے اور تمہارے لوگوں میں تقسیم کر دیا گیاہے۔اور کسی صورت کوئی مختلف رائے یا صائب مشورہ گوار ہ نہیں کیا جاتابلکہ صرف جی حضور کی گردان ہی انکی انا کی تسکین کر سکتی ہے۔
ایک ایسا ہی واقعہ گزشتہ دورحکومت کے دوران پنجاب میں دیکھنے میں آیا جب حکومت نے ایک قانون کے ذریعے میو ہسپتال اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کوخود مختاری دینے کے لیے چنا لیکن جلد بازی میں کالج کے قانون کو بطریق احسن منظور کروائے بغیر جلد بازی میں اس کو نافذ کر دیا اور ایک بورڈآف گورنر ز تشکیل دے دیا۔اس کے لیے بہت سے ماہرین سے درخواست کی گئی اور کچھ سنیئراور تجربہ کار ڈاکٹروں کے علاوہ مستند معاشی اورانتظامی امور کے ماہر اور قانونی ماہرین پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا گیا۔
اس بورڈ میں80 گھنٹے مشاورتی میٹنگز کی گئیں، قانو ن کا مفصل جائزہ لیا گیااورقانون کے تحت اپنے قوانین وضوابط بنائے گئے۔ان کو قانون کے تحت پنجاب حکومت نے منظور کرنا تھا۔
جب یہ خودمختاری کا عمل صوبے میں وسیع پیمانے پر نافذ ہو جاتا تو مختلف اداروں میں توانائی برقرار رکھنے کے لیے قانون کے تحت ایک صوبائی پالیسی بورڈبھی تشکیل دیا گیاتھا۔ڈاکٹرنوشیرواں برکی جو عرصہ دراز سے امریکہ میںمقیم ہیں،کو وفاقی ٹاسک فورس برائے صحت کا چیئرمین بنایا گیاتھا،جو بذات خود ایک عجیب وغریب سا فیصلہ تھا۔کیونکہ موصوف امریکہ میں مستقل مقیم ہیں اورسال میں ایک دو مرتبہ پاکستان کا 2 سے 3 ہفتے کا دورہ کرتے ۔وہ بظاہرپنجاب میں بھی محکمہ صحت کے سیاہ و سفید کے مالک بھی بن چکے تھے۔ انہیں بورڈکا اتنی محنت سے قانو ن کا جائزہ لینااور قانو ن کے مطابق قواعدبنانا بالکل پسند نہ آیااور بورڈ سے ایک میٹنگ کرنے کے لیے پہنچ گئے۔انہوں نے فرمایا کہ بورڈ صرف ان کے تجویز کردہ قوانین ہی اپنائے گا اور خود کسی بھی قسم کے قوانین نہیں بنائے گا
۔نوشیرواں برکی جن کا پنجاب کے محکمہ صحت سے کوئی تعلق نہ تھا،وہ اس میٹنگ کی صدارت کرنے کے لیے آگئے اور انکے ساتھ ڈاکٹر عاصم بھی آئے جو شوکت خانم ہسپتال کے ملازم ہیں اور کسی بھی پبلک ہسپتال یا پنجاب ہیلتھ میں کام کا تجربہ بھی نہیں رکھتے تھے ، اپنے ہسپتال کے لئے وافر اور بے حساب وسائل مہیا ہونے کی وجہ سے حکومتی ہسپتالوں کی مشکلات سے قطعاً آگاہ بھی نہیں، برکی صاحب کی ہر بات میں گرہ لگاتے رہے اور آخر کار برکی صاحب نے بورڈسے کہاکہ اگر آپ ہمارے تجویز کردہ قوانین نہیں اپناتے اور قانو ن کے مطابق نئے قواعد بنانا چاہتے ہیںتو میں بورڈہی تبدیل کر دیتا ہوں۔ بورڈتو توڑ دیا گیالیکن جیساکہ انہیں بتایا گیا تھا اگر قانون میں ضروری تبدیلی نہیں کی جاتی تو وہ کوئی نیا بورڈ بھی نہ بناسکیں گے۔
اس طرح خود پسندی اور مثبت تجاویز نہ سننے اور عدم برداشت نے انکی اپنی ہی سکیم کو ناکام کر دیا۔‘‘
قارئین آپ نے دیکھ لیا کہ کس طرح ایک شخص کی انا نے ایک پورے ادارے کو ادھیڑ کر رکھ دیا،اور اب اس کا کسی کے پاس کوئی علاج بھی نہیں ہے ۔ یہی حال بقیہ پورے معاشرے کا ہے ۔جس کی بوٹیاں نوچنے میں ہم کوئی کسر نہیں چھوڑرہے اور اناپرستی کے کینسر نے ہمارے ہر ادارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔
٭…٭…٭