اتوار ‘ 6؍ذیقعد 1441 ھ‘ 28؍ جون 2020ء
اپوزیشن جماعتیں یکجا‘ حکومت بلوچستان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں۔
چلیے ایک بار پھر اپوزیشن والے اپنا شوق پورا کرلیں۔ اس سے قبل بھی انہوں نے کوشش کی تھی۔ جام کمال بظاہر بے پرواہ نظر آنے کی کوشش کررہے ہیں شاید وہ جانتے ہیں کہ ’’یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘۔ انکے مشیر بھی یہی کہتے ہونگے کہ یہ بھان متی کا کنبہ ہے‘ ان سے کچھ نہیں ہونا۔ ادھر اپوزیشن بھی نئے ولولہ کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے۔ بقول شاعر…؎
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
سو اب جلد ہی میدان بھی سجے گا اور لگوڑے بھی حاضر ہونگے۔ حکمرانوں کے پاس کبھی اے ٹی ایم مشینوں کی کمی نہیں ہوتی۔ ایک جاتا ہے تو دوسرا حاضر ہوجاتا ہے۔ پھر مری ریسٹ ہائوس‘ چھانگا مانگا اور سوات بھی ہمارے ہاں موجود ہیں۔ بلوچستان میں زیارت فورٹ منرو کا اضافہ کرلیتے ہیں۔ یوں ’’سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی‘‘۔ اس وقت اختر مینگل صاحب بھی حکومت سے علیحدہ ہوچکے ہیں۔ زین بگٹی بھی اکھڑے اکھڑے سے ہیں۔ خود حکومت کے اپنے اور اتحادی وزراء ہی نہیں‘ ارکان اسمبلی میں بھی سب اچھا ہے کی رپورٹ نہیں۔ اب اگر اپوزیشن دانائی سے کام لے اور پتے کھیلے تو بازی پلٹ سکتی ہے۔ اتحادی وزراء کو کوئی فکر نہیں کیونکہ جو حکومت بنے وہ اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ انکی وزارت بدل جاتی ہے مگر سیٹ بہرحال پکی رہتی ہے۔ اب دیکھنا ہے بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور یہ ممکنہ تحریک عدم اعتماد کب پیش ہوگی۔
٭…٭…٭
بھوٹان بھی ڈٹ گیا‘ بھارت کا پانی بند کردیا۔ پانی کی بندش پر آسام میں مظاہرے۔
دوسروں کو تنگ کرنے والا خود بھی کبھی خوش نہیں رہتا۔ بھارت کو اس کا اندازہ اب بخوبی ہوگیا ہوگا۔ آس پڑوس کے پرامن چھوٹے ملکوں کو دبکانا‘ ڈرانا‘ انکے وسائل پر علاقے پر بزور طاقت قبضہ کرنا‘ انہیں استعمال کرنا جرم ہے مگر بھارت عرصہ دراز سے یہ جرم کرتا چلا آرہا ہے۔ سکم پر وہ قبضہ کرچکا ہے‘ کشمیر پر بھی قبضے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مگر وہاں کشمیری عوام سدِسکندری بن کر اسکی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ نیپال اور بھوٹان والے اسکے ہاتھوں زچ ہیں۔ مگر بھلا ہو سی پیک منصوبے کا‘ جس کی وجہ سے چین بھرپور طریقے سے بھوٹان اور نیپال میں بھی کام کررہا ہے۔ صرف کام ہی نہیں کررہا بلکہ ان ممالک کی سرحدی حفاظت بھی مضبوط بنا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے نیپال نے بھارت سے اپنے مقبوضہ علاقے خالی کرنے کو کہا‘ اب بھوٹان نے بھی اپنے آبی ذخائر سے جبراً بھارت کے زیادہ پانی کے حصول کی روایت توڑ دی ہے۔ اب بھوٹان نے بھی بھارت کو اضافی پانی دینے سے انکار کرتے ہوئے بھارت کا پانی بند کر دیا ہے۔ گویا جو بھارت پاکستان کے ساتھ کرتا ہے‘ اب خود بھارت کے ساتھ بھی ہونے لگا ہے۔ پانی کی قلت سے آسام کے کسان اور کاشتکار تلملا اٹھے ہیں۔ وہاں پہلے ہی بھارت سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ اب کسان اور کاشتکار بھی سڑکوں پر آکر بھارت کے درد سر میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ تو ابتداء ہے‘ گلوان وادی کی ہزیمت کے بعد بھارت کے ساتھ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
٭…٭…٭
یورپی یونین کے اجلاس میں شرکت کیلئے ڈنمارک کی وزیراعظم نے شادی ملتوی کردی۔
ایک وہ ہیں کہ ہر تصویر میں رنگ بھرتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ہر تصویر کو بے رنگ کرتے ہیں۔ یہ فرق ہے ہم میں اور یورپی دنیا کے حکمرانوں میں۔ انہیں امور سلطنت سے زیادہ عوام کی فکر ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنی فکر زیادہ اور عوام کی کم ہوتی ہے۔ مسلم ممالک میں کیا عرب‘ کیا عجم ہر جگہ حکمرانوں کی زندگیاں دیکھ لیں اور عوام کی طرز زندگی پر نظر ڈالیں فرق صاف ظاہر نظر آئیگا۔ مگر یورپ میں ایسا کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ وہ فلاحی ریاستیں ہیں اور ہم خلائی ریاستیں ہیں‘ باتیں کرتے ہیں ریاست مدینہ کی اور حکومت شہنشاہوں والی کرتے ہیں۔ اب ڈنمارک کی وزیراعظم کو ہی دیکھ لیں انکی جو شادی کی تاریخ طے تھی اسی دوران یورپی یونین کا اجلاس بھی ہورہا ہے۔ اب وہ چاہتیں تو اجلاس میں وزیر خارجہ کو بھیج سکتی تھیں۔ ہمارے ہاں بھی یہی رواج ہے۔ وزیراعظم نہ سہی‘ وزیر خارجہ ہی سہی۔ مگر اس خاتون کو علم ہے کہ یورپی یونین کا اجلاس کتنا اہم ہوتا ہے۔ سو انہوں نے شادی ملتوی کردی۔ اب نجانے لڑکے والوں پر کیا گزری ہوگی۔ وہ کیا سوچتے ہونگے۔ لڑکے کا دل کہیں ٹوٹ نہ جائے وہ بعد میں اس شادی سے انکار نہ کر دے۔ جی نہیں‘ یہ باتیں صرف ہم سوچتے ہیں‘ وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ چونچلے ہمارے جیسے لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں ایسی فضول باتیں سوچی نہیں جاتیں۔
٭…٭…٭
کراچی میں بجلی کا بحران جاری‘ حیدرآباد میں شہریوں کا مظاہرہ۔
کراچی میں جس طرح بجلی کا بحران جاری ہے‘ اس سے تو لگتا ہے پانی کی بندش‘ کرونا کے حملوں سے اگر کوئی بچ نکلا تو وہ بجلی کے ہاتھوں بجلی گرنے سے جان سے گزر سکتا ہے۔ کے الیکٹرک والے آئے روز حالت جلد بہتر ہوگی کا فسانہ سناتے رہتے ہیں مگر آج یہاں تو کل وہاں‘ پرسوں سارے شہر میں بجلی کی 14 گھنٹے تک طویل مورچہ بندی جاری رہتی ہے۔ خدا جانے اندرون سندھ والوں کا کیا حال ہوگا جہاں سورج بھی سوا نیزے پر آیا ہوا ہے۔ کراچی ایک انٹرنیشنل شہر ہے‘ ہمارے ملک کا معاشی حب ہے۔ وہاں کے لوگ پانی اور بجلی کیلئے محتاج ہوگئے ہیں۔ حیدرآباد میں بھی حالات کچھ بہتر نہیں‘ وہاں بھی لوڈشیڈنگ کیخلاف لوگ مظاہرے کررہے ہیں۔ حکومت سندھ نہ سہی‘ وفاقی حکومت ہی کراچی والوں کو ہی کیا پورے سندھ کو پانی اور بجلی کی کمیابی سے نکالنے کی کوئی راہ نکالے۔ ویسے تو اندرون پنجاب اور بلوچستان میں بھی بجلی اپنے صارفین کو کرنٹ مارتی نظر آتی ہے۔ ایک تو لوڈشیڈنگ کی شکل میں دوسرا بجلی بلوں کی شکل میں۔ نقصان دونوں صورتوں میں عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو وہی علامہ اقبال والی بات ہے۔ ’’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘۔
٭…٭…٭