"چور اور چوکیدار برابر کر دئیے "

اتنی بد اعتمادی ۔ اتنی توہین کہ پولیس ۔ ایف آئی اے پہلو بہ پہلو چھوٹی دوکانوں کے کھاتے ۔ سامان کا ذخیرہ چیک کر رہے ہیں ۔ سنیکڑوں تصاویر دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا ۔ سوچتے ہوئے کہ کیا پوری قوم چور ہے ۔ جن سے پیسے نکلوانے کے دعوے کیے تھے ۔ اِسی عوام سے کیے تھے ۔ یہی دھرنوں ۔ الیکشن تقاریر کے حاضرین ۔ سامعین تھے ۔ اور مقرر کون تھے ؟ جناب عالی موجودہ لمحہ کی حکومت ہدف کیا تھا اور تعاقب اُن کا شروع کر دیا جن کی حالت بدلنے کے دعوے تھے ۔ وعدے تھے ۔ شاید دعووٗں کی فصیل بہت لمبی ہوگئی تھی ۔ وعدے تو بھسم ہوئے ۔ توقعات بھی دھڑام سے پہلے ہی ہفتہ میں زمین پر آپڑی تھیں۔ اسوقت حالت یہ ہے کہ کاروباری مراکز ہُو کے عالم میں ہیں ۔ سر گرمیاں ٹھپ ہیں ۔ دکاندار ۔ تاجر حضرات صبح سے رات گئے تک وکیلوں کے پاس خواری سمیٹ رہے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دینا چاہتی ۔ اکثریت رضا مند ہے پر طریقہ کار بہت غلط ہے۔ ٹریننگ ۔ آگاہی مہمات بہت ضروری تھیں ۔ ایک انسان جب روزگار پر جاتا ہے تو پہلے دن ہی تاجر نہیں بن جاتا ۔ کھانا پکانا سیکھنے والا بھی پہلے دن "شیف" نہیں بن جاتا ۔ درزی بڑھئی سبھی ایک مخصوص راہداری سے گزرنے کے بعد اُستاد ۔ ہنر مند بنتے ہیں ۔ ایک محلے میں کھانے کی میز برابر دوکان میں کل سامان ہی 10-5" ہزار" کا پڑا ہو تو درکاندار کیسے رسیدیں لکھنا شروع کر دے ۔ 70 سالوں کی بے تدبیری "ایک ماہ" میں کیسے درست کر سکتے ہیں ۔ کتنا اچھا ہوتا کہ تمام شعبوں کی اصلاح ۔ درستگی اور ریونیو وصولی کے لیے مراحل طے کر لیے جاتے ۔ قوم کو بتایا جاتا کہ اِس سال جائیدادیں ظاہر کر دیں۔ اگلے سال بیرونی دورے ۔ گاڑیوں ۔ اکاوٗنٹس ظاہر کرنے کی پیشگی اطلاع دیتے ۔ خوف میں لوگ پیسہ نہیں دینگے بلکہ ٹکرا جائیں گے۔ کیا اب حکومت عوام سے جنگ کرنا چاہتی ہے ؟؟
"وزیراعظم صاحب" واقعی ٹیکس نہ دینے سے قرضہ جات بڑھتے ہیں ۔ ہم بھی جانتے تھے اور آپ بھی ساری حقیقت حال سے آگاہ تھے اور ہیں کہ ملک ایسے نہیں چلتے ۔ ٹیکس ضرور اکٹھا کریں ۔ کِسی نے نہ منع کیا ہے اور نہ ہی دینے سے انکار ۔ مگر طریقہ کار بہت غلط ۔ نا مناسب ۔ مبنی بر توہین ہے ۔ "جناب وزیر اعظم" آپ نے تو "چو ر اور چوکیدار" اکٹھے کر دئیے ۔ ایک ہی صف میں دونوں کو لاکھڑا کیا اور اُوپر سے ظلم ۔ "مافیا" کے گھروں کو جیلیں قرار دیدیں اور عوام کی چھابڑیوں تک پر چھاپے ۔ سمجھ نہیں آتی آپ حکومت کرنے آئے ہیں یا ریاست کا بھٹہ بھٹانے یا شاید عوام کو دفن کرنے ؟؟
بیان تھا " پاک قطر تعلقات نئی بلندیوں پر جائیں گے" ۔ کوئی یہاں آئے یا اِدھر سے باہر جائے ۔ یہی لفظ بولا جاتا ہے۔ تقاریری بلندیاں آج تک ہمارے گلی ۔ کُوچے میں کبھی نظر نہیں آئیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان بلندیوں کی سیڑھیاں صرف اشرافیہ ۔ مافیاز کے بلند و بالا محلات۔ آسائش کدوں میں اُترتی ہیں ۔ قطر کی جانب سے مزید 3ارب ڈالرز کا اعلان ۔ مزید اسلیئے لکھا کہ سعودی عرب ۔ چین ۔ عرب امارات سے 8 ارب ڈالرز آچکے ہیں ۔ آئی ایم ایف ۶ارب ڈالرز دے گا ۔ چلو یہ تو بعد میں ملیں گے ۔ پہلے تو یہ بتائیں کہ عوام سے کہا جارہا ہے کہ اپنی آمدنی ۔ اخراجات کا حساب دو ۔ ثبوت لاوٗ ۔ اپنی محنت سے کمانے والوں کے ذرائع پوچھنے والے11" ارب ڈالرز" کا حساب دے سکتے ہیں اور دے سکیں گے ؟؟
عوام کو پکا یقین ہے کہ ڈالر کی قیمت جان بوجھ کر بڑھائی جا رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے وصول ہوں۔ "روپیہ" مستحکم کرنا مقصود ہوتا تو پہلے وصول کردہ" دوستی ڈالرز" سے ہو چکا ہوتا ۔ سب سے بڑی خرابی ۔ نقص کہ ایک شہری نے دوبئی میں جائیداد خریدی ۔ تب قیمت تھی ۲ لاکھ ۔ معاشی گراوٹ کے بعد صرف 50 ہزار کی رہ گئی ۔ اب ٹیکس پالیسی دیکھیئے کہ عوام کی داد رسی کرنے کی بجائے عروج والی قیمت اور موجودہ کرنسی کی بنیاد پر ایمنسٹی اکٹھی کی جاری ہے۔ مزید براں پیسہ بھی اُس ملک میں اکٹھا ہوگا جہاں جائیداد واقع ہے۔
دوست ممالک کے سربراہان کے پاکستان کے دورے ۔ بھاری بھرکم وفود ۔ شاندار استقبال ۔ اربوں ڈالرز کی وصولیاں ۔ خوش خبریاں۔ پر عوام کو کتنا فائدہ ہوا ؟ نہ ہم نے قرضے لیے اور نہ ہی ہم پر خرچ ہوئے تو پھر ہم پر زندگی دشوار کرنے کا حق کیوں ؟ ٹھیک ہے ریونیو ہدف پورا کرنا ہے پر اِس کے لیے واحد ٹیکس دینے والی مشینری پر کیا ریاست پوری قوت سے حملہ آور ہو جا ئے والی سوچ درست ہے ؟ ریونیو ٹارگٹ کے حصول سے زیادہ آسان" ہمالیہ" سر کرنا ہے۔ کہیں یہ سب بھی تو روایتی کامیاب دوروں مثل تو نہیں ؟نالائقی ۔ عوام دشمنی کی ہزاروں مثالیں ہیں پر صرف ایک پر اکتفا ۔ اسوقت ہپا ٹائٹس ٹیسٹ کٹس ختم ہیں ۔ 5 ماہ ہو چکے ہیں ظاہر ہے فنڈز نہیں ۔ صرف "لاہور" میں 70" ہزار" رپورٹس زیر التوا ہیں ۔
آپ" امراء "کے نام مشتہر کریں ۔ یا مہنگے بازاروں میں خریداری کی رسیدیں چیک کریں ۔ ہر دو صورت میں بدنامی ہے۔ خواری ہے ضرورت نظام چلانے والوں کی نیت ٹھیک کرنے کی ہے ۔ نظام موجود ہے ۔ ادارے فعال ہیں۔ قوانین ہیں اور بے حد سخت ہیں پر اشد ضرورت ہے کہ عمل در آمد کروانے والوں کی نیت درست ہو ۔ راہ راست پر ہو ۔ عملی اقدامات کی طرف آئیں ۔ بارہا تجویز کیا بذریعہ ٹیلی فون پیغامات ۔ کالمز کہ پناہ گاہ ۔ صحت کارڈ ۔ غریب امداد وغیرہ وغیرہ طویل ۔ لایعنی ۔ بے سود پروگرامز کی بجائے صرف ایک کام کر دیں کہ پٹرول ۔ گیس کی قیمتیں کچھ برسوں کے لیے منجمد کر دیں ۔ یہ ہے اصل ریلیف ۔ ایسا ہو جاتا تو کاروبار چمک اُٹھتے ۔ بے روز گاری ختم ہو جاتی ۔ عوام کے لیے قرض لینے والے عوام پر خرچ کرنے کی بجائے متذکرہ بالا سنیکڑوں سکیموں کے ذریعہ قوم کو بھکاری بنانے پر تلے رہے پر آپ تو ایسا نہ کریں ۔ پہلے والوں کے پروگرامز سامنے ہیں ۔ سبھی اچھے تھے اور ان کے فائدہ مند اثرات دیکھے جا سکتے ہیں ۔ نقصان دہ چیزوں سے بھی بچا جس سکتا تھا ۔ اگر ایسا ہو جاتا تو آج ملک یوں پریشان حال نظر نہ آتا ۔ ہر شہر میں موجود دکانوں کے رقبہ پر فکس سالانہ ٹیکس نافذ کرنے سے خزانہ میں اربوں روپے خود کار طریقہ سے جمع ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ کر کے تو دیکھیں ۔ ہم تو حکومت اور ریاست دونوں کے حامی ۔ وفادار ہیں آپ بھی تو ثبوت دیں ۔