
میرا تعلق امجد اسلام امجد کے ساتھ زمانہ طالب علمی سے ہے۔ خوش قسمتی سے وہ میرے کلاس فیلو رہ چکے ہیں۔ میں ان کو برسوں سے جانتی ہوں۔ جب میرا بیٹا رضا رومی امریکہ سے آیا تو میں نے ایک چھوٹی سی تقریب منعقد کی، امجد اور ان کی اہلیہ نے شرکت کی۔
جب وہ آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک ضخیم کتاب تھی ’’امجد فہمی،، اور میرے ہاتھ میں تھما دی مجھے یوں لگا جیسے میرے ہاتھوں کے پیالوں میں سمندر تھما دیا ہو…کبھی میں ان کودیکھتی اور کبھی کتاب کو فنکشن کے اختتام میں کتاب میرے ہاتھ میں تھی…سید تقی عابدی نے ان کی شاعری، افسانے، سفرنامے اور پی ٹی وی پر چلنے والے ڈراموں کا بھی ذکر کیا۔ بقول سید تقی عابدی کہ امجد ایک ہمہ جہت تخلیق کار ہے۔ ان کی شاعری دوسری تخلیقات کے مقابل توانا اور نمایاں اور افضل ہے اس لیے امجد فہمی دور حاضر کی ضرورت اور اردو شعر و ادب کی ترقی کی ضامن ہے۔ اس وجہ سے یہاں صرف ان کی شاعری کا تجرباتی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے تاکہ اس سیر گل گشت سے عامی اور عالم دونوں مستفید ہو سکیں، عمدہ شاعری ادب عالیہ ہے۔ ٹی لیس ایلیٹ کا کہنا ہے جس زبان میں ادب عالیہ موجود ہو وہ فنا نہیں ہو سکتی۔
سید تقی عابدی نے بات تو بڑے پتے کی کی۔ امجد کے لاکھوں کے حساب سے مداح ہیں۔ انہوں نے نہ شاعری میں عبور حاصل کیا بلکہ نثر نگاری میں بھی ایک مقام حاصل کیا۔ اتنے بہترین اور دلچسپ ڈرامے پی ٹی کے لیے لکھے۔ اس زمانے میں لوگ ڈرامے کے وقت اپنے گھروں میں بند ہو جاتے تھے۔ ڈرامے حقیقت کے قریب ہوتے تھے اور لوگ ان کودیکھ دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے۔
کافی سال پہلے امجد کا ڈرامہ وارث بے حد مقبول ہوا۔ ان کی شہرت کوچار چاند لگے۔ اس معاشرے میں ایک شخص کو اتنی عزت ملے اور وہ تحمل مزاج اور عاجز ہو تو بڑے کمال کی بات ہے ورنہ کسی کو شہرت بھی ملے تو نشے کی طرح وہ شہرت اس کے سرچڑھ جاتی ہے۔
امجد ہر فن مولا ہے۔ ڈراموں کے علاوہ کالم نگار بھی ہے۔ کئی تھیسیسز بھی لکھے گئے اور ایوارڈ بھی ان کو ملے۔
ایک انسان بیک وقت نثر نگار اور شاعر ہو تو یہ بھی بڑے کمال کی بات ہے۔
امجد نے کئی سفر کئے اورسفرنامے بھی لکھے۔ امجد جدید سفر ناموں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ دنیا کے ہر بڑے ملک کا سفر نامہ لکھا، امریکہ، یورپ، جاپان، چائنہ اور کئی سفر کئے اور لکھے ہیں۔
امجد بنیادی طور پر ایک اچھے لکھاری ہیں۔ سفر نامہ لکھتے وقت ایک خاص دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔ ان کا بہت گہرا مشاہدہ ہوتا ہے۔
اتنی دلچسپی پیدا کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو ایک بائو کا احساس دامن گیر رہتا ہے اور یہی بنیادی لوازمات ہیں جو کسی بھی سفر نامے کی تشکیل و تعمیر کیلئے ضروری تصورکئے جاتے ہیں۔
امجد کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ان کی شاعری ان کے افسانے، کالم، ڈرامے ادب کے شہ پارے ہیں۔ آج برصغیر کے ادبی افق پر سب سے چمکدار ستارہ ان کی ذات یے ان کی تخلیقی صلاحیتیں، ان کی عمر کے ساتھ پھیلتی ہیں۔ سمٹی نہیں…جہاں کئی ادیب عمر کے ایک خاص حصے میں اپنے خیالات دہراتے ہیں وہاں امجد نے ہر طرح سے جدت کو ہی ملحوظ رکھا اور زمانے کی دھوپ ان کے فن کو نکھارا اس طرح ادب کی اعلیٰ قدروں اور مزاج کو برقرار رکھا توانائی دی۔ ان کے ہاتھوں سے کئی ادیب مستفید ہوئے ان کی چھتر چھایہ سے آج بھی راحت محسوس کرتے ہیں جو ان کو Inspire بھی کرتا ہے۔ آگے بڑھنے کا حوصلہ اور سلیقہ بھی عطا کرتا ہے۔
LARGER THAN LIFE شخصیت کے بارے میں کیا کہا جائے۔ جس کی ذات اور جس کا فن ایک زمانے کو سمیٹے ہوئے ہے۔
ان کے فن کو چار چاند لگے ہیں وہ ان کی اہلیہ فردوس ہیں جن کا نرم اور گداز ہاتھ ان کے کندھوں پر ہے اور یہ ترقی کرتے چلے گئے…اللہ کی مہربانیوں سے۔ میری دعا ہے کہ امجدکا ستارہ افق کی بلندیوں میں چمکتا ہی رہے اور وہ مزید ترقی کرتے رہیں ’’آمین،،