سنا یہی ہے کہ کتے بھونکتے ہیں اور کارواں چلتا رہتا ہے اور کہیں کارواں میں دل کی نظر سے دیکھنے والا کوئی موجود ہو تو وہ جان ہی جاتا ہے کہ بے تھکاں کراہت زدہ آوازیں نکالنے والے یہ کتے صرف بھونکنے والے ہیں یا کاٹنے کی سکت بھی رکھتے ہیں۔ ایسے ہی بندروں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ جب کبھی انکے پائوں کوئلے پر آجائیںتو گھاگرا اٹھا کر ایسے چلاتے ہیں کہ اس حرکت کے دوران وہ خود بھی بھول جاتے ہیں کہ انکا اپنا تن ننگا ہو رہا ہے۔ یوں بے پر کے شوروغوغا میں منہ سے جھاگ اڑانے کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ سمجھتے ہیں‘ سامنے دیکھتی آنکھوں والوں کے چہروں پر ایسے جمے گی کہ شناخت مخمصے میں پڑ جائے گی۔ قانون قدرت سے انکاری سمجھتے ہی نہیں کہ سورج جو جمی برف کے گلیشیئر پگھلا دیتا ہے‘ کیا جھاگ کی تہیں بٹھانے پر قدرت نہیں رکھتا؟ فرعون بھی اپنی فرعونیت ایسے بے پیندوں کو دھان کرنے پر مضطرب ہوگا۔ جن کی اقدار ہیں نہ انہیں زبان کی پاسداری‘ آج کے دور میں جمہور کی مصنوعی رٹ لگانے والے یہ مکر و جھوٹ کے سراپا اپنی اپنی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہی نہیں بلکہ ملک کے مطلق العنان شہنشاہ بن بیٹھے ہیں۔ ان کو فرق نہیں پڑتا‘ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدارسے باہر کہ اقتدار کو انہوں نے اپنے جبر و دہشت سے لونڈی بنا رکھا ہے۔ ہماری اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تو شان ہی نرالی ہے۔ یہاں کئی کئی بادشاہ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے فضا میں کھڑا کرتے ہوئے اپنے مفادات کی یکجہتی کی زنجیر بناتے ہیں۔ جب چاہے ایک دوسرے کو سراہتے ہیں‘ جب چاہے اک دوجے سے منہ موڑے پیٹھ دکھا دیتے ہیں۔ جو کوئی بھی رنگے ہاتھوں پکڑا جائے‘ اسکے جلتی پر پائوں آجاتے ہیں۔ پھر انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ بچپنا کیا ہے اور پچپنا کیا! چاہتے یہی ہیں ان کی سیاہ کاریاں دیکھنے والی آنکھیں اندھی ہو جائیں اور وہ روٹی‘کپڑے‘ مکان کا بوسیدہ بے وقعت نعرہ جھوٹ راگ کی طرح الاپتے رہیں۔ جمہور کو روٹی کے پیچھے سرپٹ دوڑانے والے اپنے اپنے اقتدار میں پارلیمانی جمہوریت پر زبانی کلامی یقین کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر جب اپنے اختیار کو قانون کی طرح لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انصاف مہیا کرنیوالے اداروں سے دست پنجہ لڑانے سے بھی باز نہیں آتے۔ قانون بننے نہیں دیتے اور انصاف کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہونٹ بھی سینے کی سعی کرتے ہیں۔ موجود مسائل کو سیاسی بیانات کے بد رنگے بادبانوں کے حوالے کرنا انکی اداکارانہ مہارت کا ثبوت ہے۔ صد افسوس کہ آنکھوں والے اندھے حکمران بھی اپنی جے جے کار کیلئے آدھا سچ بولتے‘ دہشت و بربریت پھیلانے والے بدنما چہروں کو آدھا بے نقاب کرتے اور پھر چھپا لینے کا عمل اس لئے جاری و ساری رکھتے ہیں کہ اس ملک کے سیاسی حمام میں سب ننگے ہیں۔ انکی چالاکیاں اپنے من پسند اور ذاتی کاروبار پر ٹیکس کی چھوٹ ہی کو اپنی جیت سمجھتی ہیں۔ کان ادھر سے پکڑیے کہ ادھر سے‘ بھتہ نہ لیا خود کو ٹیکس سے مبرا کر لیا۔ دوسرے کاروباروں پر ٹیکس کا بھتہ دوگنا کر دیا۔ بات ایک تو نہ ہوئی۔ دامن بچا لیا یا صاف بچ گئے۔ یہ تو اگلی حکومتیں بتائیں گی۔ جب وہ پٹاری کھولیں گی۔ فی الوقت تو عشائیے کی دعوتیں بے سود جاری ہیں۔ کوئی کال سن لیتا ہے کوئی نمبر دیکھ کر فون بجنے دیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے اپنے پیارے پاکستان میں لاقانونیت‘ دہشت‘ قبضہ گردی‘ غریبوں‘ لاچاروں‘ ناخواندہ لوگوں کی بساط نہیں‘ یہ تو چت چالاکیاں کرنیوالوں کی ذہنی شاطربازیاں ہیں۔ جب چاہیں انتظامیہ ہی کے کسی مہرے کو اپنے لئے استعمال کر لیں۔ اگر وہ نہ مانے تو اڑا دیں۔ اگر ’’بے چارہ‘‘ ہتھے چڑھ جائے اور وعدہ معاف بنتے ہوئے بے بسی سے سارے راز اگل دے کہ بھتہ چاہے نائن زیرو پر جا رہا تھا یا بلاول ہائوس‘ وہ بے بس تھا‘ تو پھر یا ٹیلیفونک گیدڑ بھبھکیاں شروع ہو جاتی ہیں تو کبھی بلاول کو امیچور کہنے والے زرداری صاحب کے پائوں کوئلوں پر آجاتے ہیں۔ ایسے میں پاک فوج کو بھی آنکھیں دکھانے سے باز نہیں آئے‘ بے شک ہوش میں آنے پر الطاف حسین کی طرح بین السطور معنی پر وضاحتیں کرتے پھریں‘ اسلئے کہ کائرہ صاحب جیسے ’’سمجھدار‘‘ سیاستدان ابھی پی پی میں موجود ہیں۔ شاید ہی اب کوئی پاکستانی یہ نہ سوچتا ہو کہ آخر کراچی میں بڑی سیاسی پارٹیاں دہشت‘ لاقانونیت‘ ڈاکہ زنی‘ بھتہ خوری میں ملوث ہوئی ہیں؟ عوام کو سمجھ میں آرہا ہے پیسہ چند ہاتھوں میں لپیٹ کر لے جانے کا معاملہ آخر معاشی طورپر ہمیں کہاں لے جا رہا ہے۔ سب سے بڑا اذیتناک پہلو یہ ہے کہ میڈیا ایسے کسی بھی موقع پر تماشبین سے زیادہ کچھ کردار ادا نہیں کرتا۔ میڈیا کی پانچوں گھی میں آجاتی ہیں اور مصنوعی دانشور ٹی وی سکرین پر اپنی سطحی لیاقت کی جگالی شروع کر دیتے ہیں۔ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔ بے چارہ محب الوطن سرکاری آفیسر گھر جاتے ہوئے گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ ماڈل گرل کے میک اپ‘ لباس اور تیاریوں پر میڈیا رپورٹس جاری ہوتی ہیں۔ اس کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے ہر چینل مسخروں کے پروگرام میں قہقہوں میں اڑا دیتا ہے۔ مسئلہ وہیںکا وہیں کھڑا رہتا ہے۔ منی لانڈرنگ کے معاملے میں زرداری صاحب اور الطاف حسین ’’بھائی‘‘ کے اختیار و طاقت پر تو اب دورائے ہو ہی نہیں سکتیں۔ ملک کے قانون اور ہر طرح کی سرزنش سے بالا یہ مضبوط ترین انٹرنیشنل مافیا افواج پاکستان کو بھی ڈھکی چھپی بریکٹ میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ حیرت کی بات ہے اگر انڈونیشیا کے سابق صدر کو اختیارت کے غلط استعمال یا ملکی قوانین سے انحراف پر موت کی سزاہو سکتی ہے تو ہمارے ہاں ہزاروں انسانوں کے قاتلوں بلکہ اپنے ہی ’’عزیز از جان‘‘ کے خون میں ہاتھ رنگنے والوں کو کیوں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے؟
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024