اتوار‘ 21 محرم الحرام 1446ھ ‘ 28 جولائی 2024ء

اسلام آباد پی ٹی آئی کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں پنکھوں کی تلاش۔ 
سب جانتے ہیں یہ مون سون کا سیزن ہے۔ گرمی اور حبس کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔ اس حالت میں بھی پی ٹی آئی والوں نے اپنے بانی سے اظہار یکجہتی کے لیے ان کی رہائی تک روزانہ چند گھنٹے بھوک ہڑتال کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ بڑے دل گردے کی بات ہے۔ یہ بھوک ہڑتالی کیمپ قومی اسمبلی کے باہر لگایا گیا ہے جہاں عمر ایوب، اسد قیصر، علی محمد  ، شبلی فراز، بیرسٹر گوہر، محمود اچکزئی سمیت کئی رہنما موجود تھے۔ یعنی پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی سب موجود تھے۔ اب گرمی کسی بڑے چھوٹے کو اپنے پرائے کو تو نہیں دیکھتی سو یہاں بھی دوپہر کے وقت جب یہ لوگ پسینے سے شرابور ہوئے تو عمر ایوب کو خیال آیا کہ گرمی سے کیسے بچا جائے، پسینہ کیسے خشک کیا جائے۔ وہ اْٹھے اور قومی اسمبلی کے اندر ٹھنڈے ٹھار ماحول میں پنکھے ڈھونڈنے چلے گئے۔ ساتھیوں کو یہ تسلی دی کہ میں پنکھے لے کر آتا ہوں مگر وہاں انہیں گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا کیونکہ سینٹرل اے سی والی اس جدید عمارت میں دور قدیم کی نشانی پیڈسٹل فین کہاں سے ملیں گے وہ کوئی پنکھوں کی دکان تو نہیں ہے۔ دیر بعد وہ واپس آئے وہ بھی بے نیل و مرام تو کہنے لگے کہ لگتا ہے اب ہمیں اپنے پیسوں سے پنکھے لانے پڑیں گے گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ ورنہ بھوک ہڑتالی کیمپ میں کون آئے گا۔ بات تو سچ ہے۔ یہ تمام لیڈران اے سی کے ماحول کے عادی ہیں۔ ان کا تو پنکھے س کچھ نہیں بنے گا۔ ہاں البتہ یہ طریقہ  بھی مناسب رہے گا کہ وقفے وقفے سے دو دو چار چار بھوک ہتالی اسمبلی جا کر وہاں گرمی دور کریں اور اے سی کا فائدہ اٹھائیں۔ یوں پنکھے خریدنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گے۔ آرام سے کہا جا سکتا ہے کہ وضو کرنے ، ہاتھ منہ دھونے یا واش روم استعمال کرنے جانا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
کملا ہیرس کی جوبائیڈن کی جگہ بطور صدارتی امیدوار نامزدگی سے مقابلہ سخت ہو گیا۔
لگتا ہے  ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کا بدلنا راس آ گیا ہے۔ الیکشن  کے ابتدائی پول سروے کے مطابق امیدوار کی تبدیلی کے ساتھ ہی 
کملا  ہیرس   اور ریپبلکن  پارٹی کیٹرمپ میں فرق کم ہی رہ گیا ہے۔بعد کے سروے سے معلوم ہو گا کہ کس کس ریاست میں کس کس کو برتری حاصل ہے۔ اب معلوم نہیں امریکہ میں تبدیلی آتی ہے یا نہیں۔ اس وقت امریکہ اور پاکستان میں تبدیلی کا بہت چرچا ہے۔ اب دیکھنا ہے امریکی عوام کونسی تبدیلی لاتے ہیں۔ یہ تبدیلی ٹرمپ کی واپسی کی شکل میں آتی ہے یا کملا ہیرس
 کے روپ میں آتی ہے۔ جو بھی ہو یہ الیکشن امریکہ میں خاصہ جذباتی اور ہیجان خیز ہو گا۔ ہاتھی اور گدھے کی یہ جنگ پوری دنیا پر اثرانداز ہوتی ہے۔  غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کے اظہار کے باعث لوگوں کی فطری ہمدردی کمیلا ہیرس کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے اور پہلی غیر سفید فام امیدوار ہونے کی وجہ سے
 امریکی ووٹروں کا متاثر ہونا قدرتی امر ہے۔ یہ جذبہ بھی ووٹروں کو متاثر کر سکتا ہے۔ یعنی پانسہ کسی وقت بھی پلٹ سکتا ہے۔ اگر ٹرمپ  اسرائیل کے حوالے سے کوئی عمدہ بیانیہ گھڑتے ہیں تو مقابلہ خوب ہو گا کیونکہ گدھا ہو یا ہاتھی دونوں صرف اور صرف اسرائیل کے ہی حقیقی دوست ہیں۔ انہیں مسلم امہ اور فلسطینیوں کے حوالے سے کوئی خاص ہمدردی نہیں۔ یہ تو ہمارے حکمران ہیں جو امریکہ کے صدقے واری جاتے ہیں ورنہ وہ تو اسرائیل پر دل و جان سے فدا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
چین کو چاند پر پانی کے آثار مل گئے۔ 
یہ تو بڑی اچھی خبر ہے۔ مگر ساتھ ہی اس کے ادھورے پن کا احساس بھی ہے۔ ابھی تک وہاں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ پانی حقیقی طور پر دستیاب ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو سمجھ لیں زمین کے بعد حضرت انسان چاند پر بھی آبادیاں بنانے میں مصروف ہو جائے گا۔ یوں چاند کی بْڑھیا جس کا ذکر ہم کہانیوں میں سنتے تھے کہ وہاں بیٹھ کر آرام و اطمینان سے اپنا چرخہ کات رہی ہے۔ اس بے چاری کے کام میں خلل پڑے گا کیونکہ حضرت انسان جہاں بھی جاتا ہے بقول شاعر 
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا 
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے 
فتنہ و فساد ساتھ لاتا ہے۔اب چاند کی پرسکون وادیاں بھی  قبضہ میں لینے کی کوشش کی وجہ سے عالمی طاقتوں کے لیے میدان جنگ بن جائیں گی۔ یوں یہی پانی اب چاند کی اس  بْڑھیا کے لیے آنسو بن جائے گا۔ اب اگر وہاں بھی پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب جگہ ملی تو بھارت وہاں بھی آبی جارحیت کے منصوبے بناتا پھرے گا اور کشمیر کی طرح پاکستانی علاقے کے کسی خوبصورت مقام پر قبضے کی کوشش کرے گا یہ وہ پڑوسی ہے جو دنیا میں آرام و سکون سے نہیں رہنے دیتا۔ اس کے چاند پر بھی یہی لچھن رہیں گے۔ وہاں بھی وہ اپنے پڑوسی ممالک سے نبردآزما رہے گا اور فساد برپا کرنے میں پیش پیش ہو گا۔ کیونکہ ’’جن کی فطرت میں ہو ڈسنا وہ ڈسا کرتے ہیں‘‘ چاند تو ویسے بھی زمین سے بہت چھوٹا ہے۔ وہاں تو ذرا سی تباہی بھی سب کچھ چند لمحوں میں ملیامیٹ کر دے گی۔ جس کے بعد سب یعنی وہاں رہنے والے فنا کے بعد
 نہ یہ چاند ہو گا نہ تارے رہیں گے 
مگر ہمیشہ تمہارے رہیں گے
کہنے کو بھی نہیں بچیں گے۔ 
٭٭٭٭٭
بنگلہ دیش میں طلبا مہم کامیاب، حکومت نے کوٹہ سسٹم پر سپریم کورٹ کا فیصلہ مان لیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام جب چاہیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر کے بڑے سے بڑے آمر کو بھی سر جھکانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ حسینہ واجد کوئی عام وزیر اعظم نہیں وہ ’’بنگو بندھو‘‘ یعنی شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں جس نے پاکستان کو توڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے جب بھی حسینہ واجد کی طویل حکمرانی کے خلاف اپوزیشن نے تحریک چلائی۔ بھارت فوراً اس کی مدد کو پہنچا۔ طلبہ کے موجودہ مظاہروں  میں بھی بھارتی فوج سرحد پر الرٹ رہی تاکہ حسب ضرورت اپنی حلیف حکومت کی مدد کو پہنچ سکے۔ اب اس حکومت کے کوٹہ سسٹم کے خلاف جس میں بنگلہ دیش بنانے والوں کے اہلخانہ کو خاص طور پر ملازمتیں ملتی تھیں، خود بنگلہ دیش کے عوام اسے زیادتی قرار دے کر یہ امتیازی سلوک ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ حسینہ واجد کی حکومت نے ایک ہفتے کے شدید ردعمل اور مظاہروں کے بعد جن میں 170 کے قریب لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، گْھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور سپریم کورٹ نے بھی کوٹہ سسٹم ختم کر کے 93 فیصد نوکریاں میرٹ پر دینے کا حکم دیا ہے جو حکومت نے مان لیا ہے۔ اس طرح حسینہ واجد کے اس اقدام سے وہ لوگ متاثر ہوں گے جو مزے لوٹ رہے تھے۔ 
اب اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آہستہ آہستہ ہی سہی حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے تو جھوٹ کے پائوں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر عوام کی طاقت خود ہی دھوکا دینے والوں کا احتساب کرتی ہے۔ یہی حال اس وقت بنگلہ دیش بنانے میں مدد کرنے والوں کا ہو رہا ہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...