جمعرات، 28 ذی الحج 1443ھ،28 جولائی 2022 ء

بھارت نے چناب میں سیلابی ریلا چھوڑ دیا
سب سے پہلے تو حکومت دریائوں کے کنارے آبادیاں قائم کرنے پر پابندی لگائے جو سیلاب کی صورت میں سب سے پہلے متاثر ہوتی ہیں۔ یہ عجب تماشہ ہے ہر سال مون سون میں بھارت راوی، چناب، ستلج اور بیاس میں پانی چھوڑتا ہے جو سارا سال سوکھے رہتے ہیں یہ پانی سیلابی ریلے کی شکل میں آنے کی وجہ سے چارسو کسی عفریت کی طرح تباہی مچاتا ہے۔ اس کی زد میں وہ تمام دیہات اور آبادیاں آتی ہیں جو دریا کی زمین یعنی بیٹ پر قائم کی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہر سال ہزاروں افراد بے گھر ہوتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود لوگ یہاں گھر وہ بھی کچے بنانے سے باز نہیں آتے۔ شاید ہر سال مال امداد کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ اس سالانہ نقصان سے بچنے کے لیے حکومت ایسے منصوبے بنائے جس میں پہلے تو یہ اضافی سیلابی پانی بند یا ڈیم بنا کر محفوظ کیا جائے تو سیلابوں کی شدت میں کمی آئے گی علاوہ ازیں دریا کے نزدیک رہنے والوں کو محفوظ مقامات پر رہائش اختیار کرنے کا منصوبہ دیا جائے تاکہ ہر سال بے گھر ہونے اور نقصان سے وہ محفوظ ہوں۔ کس قدر افسوس کی بات ہے بھارت ڈیموں پر ڈیم بنائے جا رہا ہے اور ہم دو تین ڈیم بنا کر سو گئے ہیں۔ کالا باغ ڈیم سے جن لوگوں کو موت آتی ہے ان کا سختی سے علاج کیا جائے اسے بہرصورت تعمیر کیا جائے اور اس کے علاوہ بھی دریائوں پر درجنوں چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر ملک کو سیلاب اور آبی قلت سے بچایا جائے ان ڈیموں سے جو بجلی پیدا ہو گی وہ ملک میں لوڈشیڈنگ کے جن کو بھی واپس بوتل میں بند کر دے گی جو اس وقت ملک بھر میں ادھم مچاتا پھر رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
سائنسدانوں نے شارک کو دنیا کا سب سے بڑا گوشت اور سبزی خور جاندار قرار دیدیا
شارک کے بارے میں ابھی تک یہی پتہ تھا کہ یہ نہایت خونخوار گوشت خور مچھلی ہے۔ صدیوں سے اس کی خونخواری اور حملہ آوری کی دھوم قصوں کہانیوں اور فلموں میں دیکھ کر لوگ ہمیشہ اس سے خوفزدہ ہی رہتے ہیں۔ سمندری سفر میں دور قدیم ہو یا جدید اس کی دہشت چھائی رہتی ہے۔ برصغیر میں خدا جانے یہ کم کیوں ہیں۔ شاید یہاں زندگی کے ہر شعبہ میں انسانی شکل میں موجود شارکیں اتنی بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ ان شارکوں کا کام ہی مجبور بے بس انسانوں کا گوشت نوچنا اور خون پینا ہے۔ ہر سال ہزاروں افراد ان کے ہاتھوں جان سے جاتے ہیں۔ یہ انسانی شکل کی شارکیں گوشت اور سبزی دونوں کی شائق ہیں۔ جو ملے بڑے ذوق و شوق اور رغبت سے کھاتی ہیں۔ اب سمندری شارکس کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ یہ بھی گوشت اور سبزی خور ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ شارک سمندری ہو یا انسانی شکل میںیہ سب لکڑ ہضم پتھر ہضم کر جاتی ہے۔ ان دونوں میں بے حد مماثلث پائی جاتی ہے۔ یہ مدمقابل کہہ لیں یا قابو میں جو بھی آئے بڑا ہو چھوٹا کسی پر ترس نہیں کھاتے اپنے نوکیلے تیز دانتوں اور جبڑوں میں آئے شکار کو پل بھر میں چبا کر نگل لیتے ہیں۔ اس لیے یہ دونوں ہی خطرناک شکاری اور بے رحم قاتل کہلائے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں سمندری شارک کے خطرے سے سمندر میں نہانے والوں کو خبردار کیا جاتا ہے جہاں یہ شارکیں زیادہ ہوں وہاں عوام کو جانے سے منع کیا جاتا ہے۔ مگر خشکی پر ہمارے ہاں ابھی تک ایسا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭٭
پنجاب میں سیاسی کشیدگی کا اثر عوامی کاموں پر پڑنے لگا
جب بلی گھر میں نہ ہو تو چوہوں کو خوب موج میلہ منانے کا موقع ملتا ہے۔ یہی حال اس وقت ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا بھی ہے جہاں سیاسی جنگ کی وجہ سے عوام کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ حکمرانوں کو یہ فکر تھی کہ میں رہوں گا یا نہیں۔ اپوزیشن یہ چاہتی تھی کہ وہ جلد از جلد حکمرانوں کو دھوبی پٹرا مار کر چاروں شانے چت کر د ے۔ سو وہ کامیاب رہی۔ ابھی مسلم لیگ نون کے وزیر اعلیٰ کی قائم کردہ کا بینہ حلف اٹھانے کے بعد اپنی تھکان بھی پوری نہیں کر پائی تھی کہ بازی پلٹ گئی۔ یوں
دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے
’’حلف اٹھاتے ہی سب حکومت سے گئے‘‘
یوں اب دیکھنا ہے نئی حکومت صوبے میں رُکے ہوئے عوامی مسائل کے حل میں کتنا فوری ایکشن لیتی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پی ٹی آئی عثمان بزدار کے دور کو دیکھتے ہوئے لوگ پریشان ہیں کیونکہ یہ کوئی اچھا تجربہ نہ تھا۔ اب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن کر کیا کرتے ہیں جلد معلوم ہو جائے گا۔ ان کا پہلے وزیر اعلیٰ بننے کا اچھا تاثر ابھی تک برقرار ہے۔ لوگوں کو امید ہے وہ صحت، تعلیم، صفائی اور سڑکوں کی حالت زار پر خصوصی توجہ دیں گے جو اس وقت سرکاری محکموں اور افسر شاہی کی غفلت کی وجہ سے نہایت ابتر ہو چکی ہے۔ اب سیاسی جنگ اگر تھمی ہے تو اس کا فائدہ عوام کو ضرور پہنچائیں انہیں ریلیف دیں ورنہ کہیں وہ وقت نہ آئے کہ جیت کی خوشی میں بھنگڑا ڈالنے والا بھی کسی کو دستیاب نہیں ہو گا اور جیتنے والوں میں دھمال ڈالنے کی ہمت ہی نہیں رہے گی۔
٭٭٭٭٭
جاپان میں بندروں کے حملے میں 47 شہری زخمی
شکر ہے جاپان میں بندر کی بطور دیوتا پوجا نہیں ہوتی ورنہ منکسر المزاج نرم دل جاپانی تو بندروں کے حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ ہندو مذہب میں بندر کو ہنومان کی شبیہ قرار دے کر ان کو مارنا پاپ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں بھارتی ان بدمعاش بندروں کی چیرہ دستیوں کا شکار رہتے ہیں جو گھروں میں گھس کر راہ چلتے لوگوں کے ہاتھوں سے اور دکانداروں کے سامنے ان کی دکان سے ریڑھی سے جو چیز ہاتھ میں آئے زبردستی چھین کر اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں۔ ان کی تعداد اتنی ہوتی ہے کہ کسی میں اس بدمعاش ٹولے کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ زور زبردستی دیکھتے ہوئے بھی مذہبی جذبات غالب آ جاتے ہیں اور وہ صرف انہیں ڈرا دھمکا کر بھگانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں وہ ناکام ہی رہتے ہیں۔اب جاپان میں بھی بندروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے جنگلوں، ویرانوں سے نکل کر کھیتوں کو برباد کرنا شروع کر دیا ہے ۔ جو جاپانی انہیں روکتے ہیں تو یہ دیدہ دلیر بندر ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دیہات کی بات چھوڑیں اب تو یہ موذی بندر شہریوں پر بھی حملہ آور ہونے لگے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں مختلف شہروں میں ان کے حملوں میں 42 شہری زخمی ہو چکے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں امن پسند جاپانی ان شرپسند بندروں کو قابو کرنے کے لیے کونسی سائنسی یا جنگی حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ایسا جلد نہ کیا گیا تو ہالی وڈ کی فلم ’’بندر راج‘‘ کو حقیقت میں بدلتے زیادہ دیر نہیں لگے گی اور سب سے پہلے بھارت میں جہاں اس وقت مودی راج قائم ہے بندر راج قائم ہوتا نظر آئے گا۔
٭٭٭٭٭