افغانستان: عوام اور سکیورٹی اداروں کو حکومت پر اعتماد نہیں رہا
افغانستان میں حالات مسلسل کشیدہ تر ہورہے ہیں جس کی وجہ سے افغان عوام اور سکیورٹی فورسز کے حکومت پر اعتماد میں کمی آرہی ہے۔ اعتماد کی اس کمی کی وجہ سے افغان عوام اور سکیورٹی فورسز کے افسران و اہلکار ملک کے مختلف علاقوں سے ہمسایہ ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب، افغان صدر اشرف غنی، نائب صدر امراللہ صالح اور قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب اپنے عوام اور سکیورٹی اہلکاروں کو حفاظت فراہم کرنے اور ان کا اعتماد بحال کرنے کی بجائے پاکستان پر الزام تراشی کر کے اپنی خامیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس وقت تک یہ بات پوری طرح سے واضح ہوچکی ہے کہ کابل میں بیٹھ کر افغانستان کے حکمران کہلانے والے ملک کے کسی بھی حصے میں اپنی رٹ قائم نہیں کرسکتے اور آدھے سے زیادہ ملک پر طالبان کا قبضہ اور ان کی مزید علاقوں کی طرف مسلسل پیش قدمی افغان حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اندریں حالات، اشرف غنی اور ان کی کابینہ میں شامل لوگوں کو چاہیے کہ پہلے افغانستان میں خود کو حکمرانوں کے طور پر منوائیں اور اس کے بعد کسی بھی معاملے پر اپنی رائے دیں، اور وہ رائے ایسی ہونی چاہیے جو ان کے مسائل میں اضافے کا باعث نہ بنے۔
ابھی تو صورتحال یہ ہے کہ رواں مہینے کے دوران دو مختلف واقعات میں افغان سکیورٹی فورسز کے اسّی سے زائد افسران و اہلکاران طالبان کے ڈر سے پناہ لینے کے لیے پاکستان پہنچے۔ حالیہ واقعے میں افغان نیشنل آرمی اور بارڈر پولیس کے 46 افسران و اہلکار ارندو سیکٹر کے راستے چترال پہنچے جہاں پاک فوج کی طرف سے فوجی روایات کے مطابق انہیں خوراک، علاج معالجہ اور دیگر ضروری سہولتیں فراہم کی گئیں۔ ان سکیورٹی افسروں اور اہلکاروں کو ضروری کارروائی کے بعد افغان حکام کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ افغان حکام جھوٹ کا سہارا لے کر ایسے واقعات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ واقعے کے بعد بھی افغانستان کی وزارت دفاع کے ترجمان اجمل شنواری نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ ہمارے فوجی جوانوں نے کسی دوسرے ملک میں پناہ لی ہے اور وہ بھی پاکستان میں۔ افغان اور بالخصوص افغان فوج میں پاکستان کے خلاف جتنی حساسیت ہے وہ سب کو پتا ہے۔ اجمل شنواری شاید اس بات سے واقف نہ ہوں لیکن اس سے پہلے بھی یکم جولائی کو 35 افغان فوجیوں نے اپنے فرائض ادا کرنے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے اپنی چوکیوں کو چھوڑ دیا تھا اور پاک فوج سے پناہ طلب کی تھی، ان اہلکاروں کو بھی محفوظ پناہ فراہم کرنے کے بعد افغان حکام کے حوالے کردیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں، شمالی افغانستان کے صوبہ بدخشاں کے چھے اہم اضلاع پر طالبان کے قبضے اور ان کی مزید پیش قدمی کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار پناہ لینے کے لیے ہمسایہ ملک تاجکستان چلے گئے تھے۔ سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ، صرف قندھار سے بائیس ہزار سے زائد خاندان اپنی حفاظت کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ قندھار کے محکمہ مہاجرین کے صوبائی سربراہ دوست محمد دریاب نے ان بائیس ہزار سے زائد خاندانوں کی ہجرت کی تصدیق کی ہے۔
بگڑتے ہوئے حالات کے پیش نظر افغانستان کے ساتھ واقع پاکستان کی سرحد سے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی)، لیویز فورس اور دیگر ملیشیاز کو ہٹا کر ان کی جگہ پاک فوج کو تعینات کردیا گیا ہے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی تیزی سے جاری ہے جو 90 فیصد مکمل ہوچکا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ باڑ لگانے کا کام 14 اگست کو مکمل ہو جائے گا۔ پاکستان کی ایران کے ساتھ واقع سرحد پر بھی باڑ لگائی جارہی ہے جس کا 46 سے 48 فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے۔ پاک افغان سرحد پر فوج کی تعیناتی سے متعلق بات کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ یہ فیصلہ حالات کی کشیدگی کے پیش نظر کیا گیا۔ یہ ایک درست فیصلہ ہے اور اس پر عمل درآمد سے پاکستان آنے والے دنوں میں بہت سے مسائل سے بچ سکتا ہے۔ افغانستان میں حالات جس تیزی سے خراب ہورہے ہیں ان کا منفی اثر پاکستان کے سرحد کے قریب واقع علاقوں پر بھی پڑے گا لیکن پاک فوج کی وہاں موجودگی سے یہ اثر بہت کم ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں، پاک فوج کی سرحد پر موجودگی سے سب سے بڑا اور اہم فائدہ یہ ہوگا کہ بھارت کے خفیہ اداروں سمیت جو بھی امن دشمن عناصر افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں ان کے مذموم ارادے خاک میں مل جائیں گے اور انہیں پاکستان میں کوئی تخریبی کارروائی کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا۔
پاکستان موجودہ حالات میں ایک طرف تو اپنے دفاع پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور دوسری جانب افغان امن عمل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے افغان حکومت اور دیگر شراکت داروں کی بھرپور مدد کررہا ہے۔ افغان حکومت، امریکی انتظامیہ اور طالبان کے درمیان رابطوں اور مذاکرات کے لیے راستہ ہموار کرنے کا اہم کام بھی پاکستان نے ہی کیا۔ اس سلسلے میں خود امریکی انتظامیہ بھی کئی مواقع پر پاکستان کے مثبت کردار کا اعتراف کرچکی ہے۔ دفتر خارجہ اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے یہ بات کئی بار کہی جاچکی ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے اور افغانستان میں امن و استحکام سے پاکستان کا اپنا سکون اور سلامتی بھی جڑی ہوئی ہے۔ افغان حکومت کو چاہیے کہ اس موقع کو غنیمت جان کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے موجود چینلز کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ملک میں حالات کو بہتری کی طرف لانے کی کوشش کرے۔ ملک کے مختلف حصوں سے عوام اور سکیورٹی اہلکاروں کی ہمسایہ ممالک میں ہجرت اور طالبان کا ملک کے مختلف علاقوں پر قبضہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ افغان حکومت کی بنیاد کتنی مضبوط اور مستحکم ہے، لہٰذا الزام تراشی اور کھوکھلی بیان بازی کا راستہ ترک کر کے ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے افغانستان کو ریاست کے طور پر امن اور استحکام نصیب ہو۔