سر راہے
مریم اور بلاول آزاد کشمیر میں شکست کے بعد کیسا محسوس کر رہے ہیں: فرخ حبیب ۔
یہ دنیا بڑی سنگدل ہے۔ کسی صورت جینے نہیں دیتی اب الیکشن میں شکست کو ہی لے لیں۔ اس حوالے سے کیا کچھ سننے کو مل رہا ہے۔
یہ دنیا غم تو دیتی ہے شریک غم نہیں ہوتی
’’الیکشن ہار جانے سے عزت کم نہیں ہوتی‘‘
مریم اور بلاول کیا انسان نہیں ہیں۔ اتنا خرچہ کیا اتنی محنت کی پھر بھی ہار گئے۔ اسکے غم میں وہ دبلے ہوں نہ ہوں روہانسے تو ضرور ہو گئے ہونگے۔ کیونکہ اگر کوئی پتھر دل بھی ہوتا تو وہ اتنے بڑے بڑے جلسوں کے بعد یوں ہارنے پر پھٹ ضرور پڑتا۔ یہ بے چارے تو دھاندلی کا پرزور نعرہ بھی نہیں لگا سکے۔ انہیں تو چپ سی لگ گئی ہے۔ بلاول خوش ہیں کہ پہلے کے مقابلے میں 3 سیٹیں زیادہ جیتی ہیں۔ مریم کے ساتھ البتہ برا ہوا ان کا صدمہ بلاول سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ انکی تو حکومت بھی گئی اور صرف 6 نشستیں ہاتھ آئیں جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 5 سال کی حکمرانی میں اگر انہوں نے کوئی کام کیا ہوتا تو بہتر نتائج سامنے آتے مگر لگتا ہے باقی حکومتوں کی طرح انکی حکومت بھی لٹوتے پھٹوکے فلسفے پر عمل کرتی رہی۔ ورنہ کم از کم 16 سیٹوں پر کامیابی ضرور ملتی۔ اب وزیر مملکت فرخ حبیب جس طرح ہارنے والوں کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں وہ گرچہ ان کا حق ہے۔ مگر بقول غالب ’’آخر گنہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں‘‘ انہیں ساتھ مرہم بھی لگانا چاہیے جو کام سختی سے نہیں ہوتا وہ نرمی سے ہو جاتا ہے۔ اس طرح کم از کم سیاسی تلخی میں تنائو میں کمی آ سکتی ہے۔ جس کی پاکستان میں ہی نہیں آزاد کشمیر میں زیادہ ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭
کرونا کی شرح 7.51 فیصد بڑھ گئی ، عوام سنجیدہ ہو جائیں۔ صدر عارف علوی
کرونا پر بات کرنے سے پہلے ذرا حکومت اس سوال کا تو جواب دے جو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نے پوچھا ہے کہ کرونا پیکج کے تحت جاری 1240 ارب روپے کہاں گئے کہاں خرچ ہوئے۔ ابھی تک تو ہم مفت امداد میں ملنے والی ویکسین لگا رہے ہیں۔ اس سوال کا جواب دینا حکومت نے ہے۔ ویسے ملک بھر میں کرونا کے پھیلائو میں ایک بار پھر خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ مگر پاکستانی قوم وہی مرغ کی ایک ٹانگ والی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حکومت کی طرف سے بار بار آگاہ کیا جا رہا ہے کہ کرونا کی بھارتی قسم خاصی خطرناک ثابت ہو رہی ہے جس کی وجہ سے اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ اسکے باوجود لوگ ویکسنیشن کیلئے سنجیدہ نہیں ہو رہے۔ کوئی کرونا کو ڈرامہ کہہ رہا ہے تو کوئی اسے انگریزوں کی سازش ۔ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ یہ ایک خطرناک وبا ہے جو انسانوں کو نگل رہی ہے۔ اس سے بچائو کی ویکسین لگانا ضروری ہے تاکہ انسانی جسم کا مدافعتی نظام بہتر اور مضبوط ہو۔ ویکسین لگوانے کے باوجود جب تک حفاظتی اقدامات پر عمل نہیں ہو گا۔ کرونا سے بچائو ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو عوام کا مزاج درست کرنے کیلئے انہیں لائن پر لانے کیلئے ایک بار پھر سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ ماسک کے بغیر کسی کو باہر کھلے عام گھومنے پھرنے پر پابندی لگانا ہو گی۔ سرکاری و نجی دفاتر میں دکانوں مارکیٹوں میں سینی ٹائزر کا استعمال لازمی قرار دینا ہو گا اور سب سے بڑھ کر ہر صورت سماجی فاصلے کو برقرار رکھنے کے اقدامات کرنا ہونگے۔ جو لوگ میری مرضی میرا جسم کے تحت ایسا کرنے سے انکار کریں تو انہیں قانون کی مرضی کے مطابق کڑی سزا دی جائے۔ یہ لوگ خود تو مریں گے ساتھ ہی کئی اور لوگوں کی موت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
رواں برس کے آخر تک عراق میں فوجی کارروائیاں ختم کر دیں گے: جوبائیڈن
افغانستان کے برعکس عراقی حکومت تو کب سے کہہ رہی ہے کہ امریکہ عراق سے اپنے فوجی واپس بلائے۔ مگر امریکہ ہے کہ آئے بھی اپنی مرضی سے اور جائینگے بھی اپنی مرضی والی من مانی کرتا رہا ہے۔ عراق کے برعکس افغانستان حکومت منتیں ترلے کر رہی ہے کہ امریکہ افغانستان سے نہ جائے۔ مگر وہاں متواتر بے عزتی اور ہزیمت کے بعد امریکہ کا دل افغانستان سے بھر گیا ہے۔ جس کام کیلئے وہ آیا تھا وہ ہو چکا ہے۔ اب بھلا اسے کیا پڑی ہے کہ وہ اپنی طفیلی حکومت کی خاطر دردسری مول لے۔ امریکہ صرف اپنے مفادات کا تابع ہے۔ اسے کسی دوست یا دشمن کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اپنے مفادات کے تحت دوست بھی بناتا ہے اور دشمن بھی۔ پولیس والوں کی طرح اس کی دوستی اچھی نہ اس کی دشمنی اچھی اس لیے عقلمند حکمران اس سے مناسب فاصلے پر رہ کر اپنی اور اپنے عوام کی جان اور عزت محفوظ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر کیا کریں امداد ، قرضے اور تحفظ کے نام پر امریکہ بہادر مان نہ مان میں تیرا مہمان بن کر جہاں جی چاہے دخل در معقولات کرتا پھرتا ہے۔ اب عراق میں مطلب نکل جانے کے بعد امریکہ اسے بھی بائے بائے کر کے باہمی انتشار کی آگ میں جھونک کر جا رہا ہے۔ یہی کام اس نے افغانستان میں بھی کیا ہے۔ دیکھنا ہے اب افغانستان اور عراق کے حکمران اور عوام انسانوں کی طرح رہتے ہیں یا وحشی درندوں کی طرح ایک دوسرے کا گوشت نوچنے کیلئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ خدا کرے امریکہ کا افغانستان اور عراق سے نکلنا سعد ثابت ہو اور وہاں کے عوام پرسکون زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔
٭٭٭٭٭
تعلیمی اداروں کی چھٹیاں 14 اگست تک بڑھانے کا فیصلہ
اس طرح تو لگتا ہے وزارت تعلیم کا نام جلد ہی تبدیل کر کے وزارت تعطیلات رکھنا پڑیگا۔ کیونکہ سننے میں یہی آ رہا ہے کہ نیا تعلیمی سال 15 اگست یا یکم ستمبر سے شروع کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ فیصلہ آج یا کل ہو جائیگا۔ اس طرح تو نہم اور گیارہویں کے امتحان بھی ملتوی ہو سکتے ہیں۔ اس فیصلے سے تو طالب علموں کی جان میں جان آئی ہو گی جو اس گرمی میں سکول کھلنے کے خوف سے ہی پسینے میں شرابور ہو رہے ہیں۔ یکم ستمبر سے موسم قدرے بہتر تو نہیں مگر مناسب ہونے لگتا ہے۔ ویسے بھی پنجاب اور سندھ میں موسم گرما کی تعطیلات کے بعد ستمبر میں ہی سکول کالج کھلتے ہیں۔ یہ فیصلہ البتہ پرائیویٹ سکولز مالکان کے سر پر بم بن کر پھٹا ہو گا جو دونوں ہاتھوں سے والدین کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اکثر نجی سکول مالکان خود بمشکل میٹرک پاس ہیں۔ انہوں نے معمولی چند ہزار روپے کے عوض میٹرک اور ایف اے پاس لڑکیوں کو ٹیچر رکھا ہوتا ہے جنہیں چھٹیوں میں یہ معمولی تنخواہ بھی نہیں دی جاتی اور ان سے کام بھی زیادہ لیا جاتا ہے۔ یہ سکول مالکان پورا سال فیس بھی مکمل لیتے ہیں اور فنڈز بھی۔ انہوں نے تو حکومتی احکامات بھی نہیں مانے اور کرونا کی چھٹیوں میں بھی فیسیں اور فنڈز پورے وصول کئے۔ ان 4 مرلے 5 مرلے والے سکولوں میں کیا علم دیا جا رہا ہے اس کی تو بات ہی چھوڑیں۔ یہ سب کمائی کے اڈے بنے ہیں۔ اگر سرکاری سکولوں میں پہلے کی طرح اچھی تعلیم دی جائے اساتذہ سیاست سے ہٹ کر کام کریں تو یہ نجی سکول اپنی موت آپ مر سکتے ہیں۔ اب 15 اگست یا یکم ستمبر کو جب سکول کھلیں گے تو کیا جو تعلیمی حرج ہوا ہے وہ ختم ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭