منگل ‘6 ؍ ذوالحج 1441 ھ‘ 28؍جولائی 2020ء
خراب کارکردگی دکھانے والے سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ
فیصلے تو بہت ہوتے ہیں ہمارے ہاں اصل بات ان پر عملدرآمد کی ہے۔ خراب کارکردگی والے ملازمین کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر فارغ کرنے کے فیصلے کی کوئی بھی ذی ہوش مخالفت نہیں کرے گا۔ عوام سرکاری دفاتر میں ان کی کارکردگی دیکھ دیکھ کر ان کے کرتوتوں سے واقف ہو چکے ہیں۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے سرکاری ملازمین کو لوگ آج بھی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ مگر ان کالی بھیڑوں کی وجہ سے ان کو بھی بدنامی کا طعنہ سہنا پڑتا ہے۔ اب گریڈ ایک سے 19 ویں گریڈ تک کے ملازمین کی فہرست تیار کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ اس سے ان ملازمین میںکھلبلی تو ضرور مچ گئی ہو گی جو ابھی تک کام نہ کاج دشمن اناج بنے مفت کی تنخواہیں لے رہے ہیں۔ فی الحال تو کارکردگی والا یہ کوڑا وفاقی ملازمین کی کمر پر برسنے والا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر صوبائی ملازمین یعنی سرکاری محکموں کے مفت خور ملازموں پر بھی یہ خبر برق بن کر گرے کہ اب ان کی بھی باری آنے والی ہے۔ صوبوں میں تو حالت وفاق سے بھی زیادہ بُری ہے۔ وہاں تو ہر محکمے میں ایسے درجنوں بہت سے محکموں میں تو سینکڑوں ملازمین مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کو بھی راہ راست پر لایا جائے تاکہ ان محکموں میں ایمانداری سے کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی حوصلہ افزائی ہو اور ان کی کارکردگی بہتر ہو۔
٭٭٭٭
زرداری ہی ملک کو بحران سے نکال سکتے ہیں: بلاول
سچ کہہ رہے ہیں بلاول میاں۔ کیونکہ ’’تمہی نے درد دیا ہے تمہی دعا دینا‘‘۔ والی بات ایسے ہی کسی نے تو نہیں کی۔ اب بلاول جی بھی بہت اچھی طرح یہ بات جانتے ہوں گے ملک کو بحرانوں میں مبتلا کس نے کیا ہے۔ اگر وہ یہ نہیں جانتے تو اُمید ہے آس پاس کے لوگوں سے ضرور انہیں یہ معلوم ہو چکا ہو گا کہ بحرانوں کے ذمہ دار کون ہیں۔ بہرحال آف زرداری کی سالگرہ پر ملک بھر سے ان کے مداحوں نے انہیں مبارکباد دی ہے۔ کئی شہروں میں ان کی سالگرہ کے کیک بھی کاٹے گئے۔ بلاول نے اپنے والد صاحب کو اس موقع پر مبارکباد بھی دی ہے۔ گھر میں سب نے مل کر ھیپی برتھ ڈے ٹو یو کا گیت گایا ہو گا۔ کیک بھی کاٹا ہو گا۔ ویسے تو کافی دن ہو گئے زرداری صاحب کی میڈیا پر جلوہ نمائی نہیں ہوئی۔ دشمن طرح طرح کی ہوائیاں بھی اُڑاتے رہے ہیں مگر ان کی سالگرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جہاں بھی ہیں خیر و خوبی سے ہیں۔ صحت مند ہیں ، جبھی تو بلاول جی کو یقین ہے کہ وہ ہی وہ مرد بحران ہیں جو اس ملک کو بحران سے نکال سکتے ہیں۔ مرد حُر تو وہ پہلے سے ہی ہیں۔ اب مرد بحران بھی بن سکتے ہیں۔ نسب شرط یہ ہے کہ انہیں پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر ملک کی باگ ڈور ان کے سپرد کی جائے تاکہ وہ کھل کر کھیل سکیں۔ اب دیکھتے ہیں عوام ان کی اس بات پر کتنا غور کرتے ہیں۔ آصف زرداری کیلئے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا موقع فراہم کرتے ہیں یا نہیں۔
٭٭٭٭٭
عابد باکسر لاہور باکسنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین منتخب‘ جاویدمیانداد نے بوتیک کھول لیا
بظاہر تو یہ متضاد خبریں ہیں مگر دونوں کا تعلق کھیلوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے شعبوںمیں بہت نام کمایا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک اپنی نیک نامی کی وجہ سے اور دوسرا کھیل کی وجہ سے مشہور عالم ہے۔ سلمیٰ آغا نے ان کے چھکے کی تعریف ایک خوبصورت پیروڈی نغمے میں یوں کر چکی ہیں
اک چھکے کے جاوید کو 9 لاکھ ملیں گے
توصیف بے چارے کو درہم چار ملیں گے
اب انہوں یعنی جاوید میانداد کرکٹ کے بازار میں مندی دیکھ کر اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے بوتیک کھول رہے ہیں۔ یوں ان کی شہرت کی وجہ سے بھی یہ بوتیک خوب چلے گا۔ اسی طرح عابد باکسر بھی ایک طویل خاموشی اور جلاوطنی کہہ لیں یا فرار کے بعد ملک میں واپس آ چکے ہیں۔ مگر واپس آ کر بھی وہ خاموش نہیں بیٹھے۔ مسلسل کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ ان کی آمد سے کسی کو کچھ ہو یا نہ ہو مگر نرگس جی ہاں اداکارہ نرگس کی طرف سے لوگوں کو تشویش تھی کہ کہیں ان کو پریشانی کا سامنانہ کرنا پڑے۔ مگر خیر اب وہ سب باتیں پرانی ہو چکی ہیں۔ اداکارہ نرگس بھی حاجن بن چکی ہیں۔ عابد باکسر کا معلوم نہیں وہ حاجی بن چکے ہیں یا نہیں۔ پولیس مقابلوںکے علاوہ وہ باکسنگ کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے اب کھیلوں کے حلقوں میں قدم جما چکے ہیں اور لاہور باکسنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین بن چکے ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ اس فیلڈ میں کس کس کو ناک آئوٹ کر کے ایک بار پھر دھوم مچاتے ہیں۔
٭٭٭٭
خزانے کی تلاش میں پرانی قبر کھودنے والا پیر مریدوں سمیت گرفتار۔
اس جدید دور میں بھی ہمارے یہ جعلی پیر فقیر اور ملنگ نجانے کہاں سے خزانے کی خوشبو سونگھ لیتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو بہت زیادہ ہندوستانی فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں یا پھر جادوئی کہانیاں پڑھتے رہتے ہیں اس لئے انکے دماغ میں یہی فلمیں، ڈرامے یا کہانیاں چلتی رہتی ہیں۔ اب اس پیر کو نجانے کہاں سے رات کوخواب آیا جس میں اسے خزانے کی خوشخبری ملی۔ پھر آئو دیکھا نہ تاؤ اس پیر صاحب نے اپنے مریدوں کو ساتھ ملایا اور فلمی انداز میں پرانی قبر کی کھدائی شروع کردی۔ اب اگر فلموں، ڈراموں اور کہانیوں کی طرح یہاں اصلی خزانہ ہوتا تو اس کی حفاظت کیلئے سانپ یا جنات تو ضرور ہوتے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ کسی پیر یا مرید کو کوئی بلا نہیں چمٹی، وہ اطمینان سے کھدائی کرتے رہے۔ اس واقعہ کی بھنک کسی طرح پولیس کو بھی پڑی تو پولیس نے آکر اِن مست ملنگوں کو قابو کیا اور قبر کی بے حرمتی کا مقدمہ درج کرلیا۔ اب یہ بے چارے ’’دوچار ہاتھ آکر لب بام رہ گئے‘‘ کی تصویر بنے حوالات میں اپنے خیالی خزانے کی بربادی کا سوگ منا رہے ہونگے۔ اب اس خبر کے بعد نجانے کتنے اور خزانوں کے پجاری اسکی تلاش میں کھدائی کا باقی نامکمل کام کرنے کیلئے قبر میں اتر پڑیں۔ خود کئی پولیس والے بھی کیا پتہ خزانے کی کھوج میں تفتیش کا ایسا چکر چلائیں کہ مردے بھی قبر سے نکل کر ’’جان کی امان پائوں‘‘ کہتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر اپنے آرام میں خلل نہ ڈالنے کی اپیلیں کرتے پھریں۔ نجانے کیا ہوگیا ہماری اس بے عمل قوم کو، ہاتھ پر ہاتھ دھرے کبھی خزانے کی، کبھی کیمیا کی، کبھی کسی پارس کی تلاش میں رہتے ہیں۔ خود کچھ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔