گُڈ نون، گُڈ بائی نون اور گُڈ آفٹر نون
’ن‘ یا ’نُون‘ہندی زبان کا بیسواں ، عربی کا پچیسواں ، فارسی کا انتیسواں اور اردو کا بتیسواں حرف ہے ۔ ابجد میں اس کے پچاس عدد مقرر ہیں ۔ یہ حرف ہندی الفاظ کے شروع میں نفی کے واسطے آتا ہے اور ہمیشہ مکسور ہوتا ہے جیسے نِڈر ، فارسی میں الفاظ کے آخر میں مصدر کی علامت ہے جیسے کَردن یا مُردن۔ ہندی الفاظ کے آخر میں آ کر انہیں حاصل مصدر بنا دیتا ہے جیسے الجھن یا اینٹھن ۔ کبھی ہندی الفاظ کے آخر میں آ کر نسبت کا فائدہ دیتا ہے جیسے سہاگن ۔ کبھی تانیث ظاہر کرتا ہے جیسے مالن یا دھوبن ۔ مونث الفاظ میں جن کے آخر میں ’یا‘ ہو جمع کے واسطے آتا ہے جیسے گُڑیاں یا پُڑیاں۔ کسی لفظ میں پ ، پھ، ب یا بھ سے پیشتر آنے پر اس کی آواز میم یعنی م سے بدل جاتی ہے جیسے منبر یا سُنبل اور اگر کسی مسلم لیگ کے آخر میں بطور لاحقہ آ جائے تو سب سے موثر مسلم لیگ یعنی مسلم لیگ ن بن جاتی ہے ۔ صوتی اعتبار سے نو ن کی دو قسمیں ہیں ایک نونِ اِعلانیہ اور دوسرا نون غُنہ ۔ نون غنہ ناک میں بولا جاتا ہے اور اس میں کوئی حرکت نہیں ہوتی جیسے چیونٹی ۔ اور جب’’نون‘‘ اندر سے خالی اور کھوکھلا ہو جائے تو وہ نون غنہ کہلاتا ہے یا کہلاتی ہے ۔ حرفِ تہجی ہو تو کہلاتا ہے مسلم لیگ ہو تو کہلاتی ہے ۔ پاکستا ن میں ’ن‘ سے نواز شریف بنتے ہیں یا نوازشریف سے ’ن‘ بنتی ہے یعنی مسلم لیگ ن ۔ پاکستان کی خالِق اور مالِک سیاسی جماعت مسلم لیگ تھی اب جبکہ پاکستان اے ٹو زی ( A to Z) مسلم لیگ کا مالک ہے ۔ Aسے آل پاکستان مسلم لیگ اور عوامی مسلم لیگ جبکہ Zسے ضیاالحق مسلم لیگ۔
1983ء میں پنجاب کے گورنر جنرل جیلانی تھے جب میاں محمد نواز شریف پنجاب کے وزیرِ خزانہ بنے ۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں میاں نواز شریف کو وزیرِ اعلیٰ نامزد کردیا گیا اور ممبرانِ اسمبلی سے کہا گیا کہ انہیں اعتماد کا ووٹ دو۔ سات ممبرانِ اسمبلی کے علاوہ سب نے میاں صاحب پر اعتماد کیا۔ جبکہ محمد خان جونیجو پاکستان کے وزیراعظم بن گئے ۔ 1988ء میں نوا زشریف دوبارہ وزیراعلیٰ بن گئے جبکہ بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم پاکستان بن گئیں ۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف دھواں دھار بیانات داغتے ۔ جس کا فائدہ نواز شریف کو اور نقصان بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کو ہوتا گیا۔ جوں جوں بے نظیر تندی بادِ مخالف کو تیز کرتی چلی گئیں توں توں نواز شریف کی اُڑان اونچی ہوتی چلی گئی ۔ اِتنی اونچی کہ مقتدر حلقوں ، عوام اور خود نواز شریف کو یقین ہو چلا کہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ صرف نواز شریف ہی کر سکتے ہیں۔ ایک موقع پر نواز شریف اور بے نظیر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہو گئے کہ جگانے والوں نے بے نظیر بھٹو کے ایک وفاقی وزیر کو جگا کر کہا کہ ہم نے نواز شریف کے خلاف تمہارا بیان اخبار میں لگا دیا ہے تم نے تردید نہیں کرنی ۔ میاں صاحب نے جب وہ بیان پڑھا تو جوابی بیان داغا کہ ہم پاکستان توڑنے والے کی بیٹی سے مذاکرات نہیں کریں گے ۔
مکافاتِ عمل ہے کہ کپتا ن عمران خان نے بھی اسی فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بُل (Bull)کو سرخ کپڑا دکھایا کہ وہ مجھ پر حملہ آور ہو تا کہ سٹیڈیم کے تمام عوام کی نظریں مجھ پر لگ جائیں ۔ نواز شریف نے پہلے پہل نظریں چرائیں اور نظر انداز کیا پھر دھیرے دھیرے کپتان کی پچ پر کپتان کی پھینکی ہوئی بالوں کو میاں صاحب نے کھیلنا شروع کردیا اور دِل کے اس کھیل میں میاں صاحب کی سیاسی جاں کا بہت زیاں ہوا اور کپتا ن خان کی سیاست میں جان پڑتی گئی ۔
ہم نے پاکستان کے مکتبِ سیاست کا دستور نرالا دیکھا ہے کہ جب بھی کسی سیاسی جماعت کی حکومت کی چھٹی ہونے لگتی ہے تو وہ پرندے جنہوں نے سبق یاد نہیں کیا ہوتا وہ اپنے بستے باندھنا شروع کر دیتے ہیں اور کسی آفتِ ناگہانی کا اشارہ پا کر حکومتی درخت سے کُوچ کرنے کے لیے ٹیک آف پوزیشن اختیار کر کے تیزی سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس بارش کا پہلا قطرہ صوبائی وزیر عطا محمد مانیکا ثابت ہوئے جنہوں نے حرف ِ شکایت بلند کیا اور استعفیٰ دے کر واپس لے لیا۔ دوسرا تگڑا قطرہ چودھری نثار علی خان بننے جا رہے ہیں ۔ وہ بھی اپنے میلے کپڑے میڈیا چوک میں دھوئیں گے اور مانیکا کی مانند فی الحال ہلکی پھلکی موسیقی چلائیں گے اور میاں صاحب کے تالاب کے ٹہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینک کر دیکھیں گے کہ کتنا ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور اُس کے نتیجہ میں کتنی لہریں اٹھتی ہیں۔
مولوی کی بیوی نے صحن میں کھانا رکھا مولوی صاحب ہاتھ دھو کر پلٹے تو ایک کوا ایک روٹی اُٹھا کر منڈیر پر جا بیٹھا مولوی صاحب نے کوے سے کہا روٹی واپس رکھو ورنہ فتویٰ دے دوں گا کہ کوا حلال ہے ۔ کوے نے روٹی واپس رکھتے ہوئے کہا میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا ۔ چودھری نثار بھی پہلی پریس کانفرنس میں میاں صاحب کی ایک آدھی روٹی سُرکا کر لِٹمس ٹیسٹ کریں گے ۔ اگر تو میاں صاحب کا فتویٰ ہوا جاندارتو پھر تو چودھری صاحب روٹی واپس رکھ کر پرانی تنخواہ پر کام شروع کر دیں گے ورنہ کوے میاں صاحب کی ’چھکور‘ خالی کر دیں گے ۔ ن سے نوازاور ن سے نثار ۔کیا چودھری نثار میاں محمد نوا ز شریف کی ن کو خالی اور کھوکھلا کر کے نون غُنہ میں بدل کر اپنی ن(مسلم لیگ نثار) بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ، وہ گڈ نون کو گڈ بائی نون کہہ کر گڈ آفٹر نون بنا پائیں گے ، اس کا انحصار’’ تقدیر کے قاضیوں کے فتوئوں‘‘ پر ہے ۔
اگر میاں صاحب ضعف کا شکار ہو گئے تو پھر جرمِ ضعیفی کی سزا تو انہیں ملے گی۔ اُس صورت میں کپتان خان کی سربراہی میں ایک نیا اتحاد بنے گا جس میں کپتان، پیپلز پارٹی کے درخت سے اُڑان بھر کر کپتا ن کے پیڑ پر آشیانے تلاشنے والے پنچھی، مسلم لیگ آفٹر نون ، جماعتِ اسلامی ، عوامی مسلم لیگ، مسلم لیگ ق اور علامہ طاہرالقادری شامل ہونگے ۔ کپتان مرکز اورمسلم لیگ آفٹر نون پنجاب۔