طیاروں میں HEARWEAR اور نشستوں پر ترجیحی بنیادوں پر کام جاری ہے۔ گزشتہ 3 ماہ سے پی آئی اے کی ہر فلائیٹ مقررہ وقت پر آ اور جا رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اول ترین ضرورت پاکستانیوں کا اپنی ائرلائن پر اعتماد بحال کرنا ہے۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ لندن کیلئے ہم مزید فلائٹس چلائیں۔ طیاروں میں دیئے جانیوالے کھانے (Manue) پر ہمارا خصوصی فوکس ہے، کھانے کا معیار تبدیل کیا جارہا ہے۔ فضائی میزبانوں کی خصوصی تربیت کو جدید تقاضوں کے مطابق کسٹمر سروسز کے عین مطابق مکمل کیا جارہا ہے۔ 20 ائرہوسٹس کے ایک گروپ کو قطر میں خصوصی تربیت دی جارہی ہے تاکہ P.I.A کی دیگر فضائی ہوسٹسز کو ان سے اضافی تربیت حاصل ہوسکے۔ گرائونڈ سٹاف اور دیگر محکموں میں سے بھی ہر ماہ 500 افراد کی چھانٹی کا عمل بھی جاری ہے اور توقع ہے کہ بہتری کا مجموعی 2020 سے شروع ہوجائیگا۔ قومی فضائی کمپنی کو ہونیوالے شرمناک حد تک خسارے کے بارے میں C.O.O کا کہنا تھا کہ گزشتہ مارچ اور اپریل سے Oprational Profit کا بھی آغاز ہوچکاہے۔ اِس سلسلہ میں میں خود اجلاس میں شامل ہوتا ہوں۔ مزید نئے طیارے حاصل کئے جارہے ہیں۔ اسی طرح جہاز میں Primier کلاس کو مزید سہولتوں سے آراستہ کیا جارہا ہے۔ پروکیورمنٹ اینڈ لاجسٹک ڈائریکٹر عمران خان اور انکے دوسرے کولیگ عامر علی بھی بھرپور تسلیاں دے رہے تھے۔ طیاروں کی Maintanance اور مسافروں سے فضائی عملے کی غیر مہذبانہ گفتگو کا ہلکا اقرار بھی کیا جارہا تھا۔ پی آئی اے کو ایک بار پھر بااعتماد اور "Great People to Fly" کے ’’موٹر‘‘ پر بُوسٹ کرنے کی منصوبہ بندی بھی جاری تھی۔ قطر ائرویز سے کئے حالیہ معاہدے میں وہاں تربیت حاصل کرنیوالی 20 فضائی میزبانوں کی جدید تربیت کو بھی ترقی کا زینہ قرار دیا جارہا تھا۔ ائر کموڈور خان صاحب بھی ترقی کے بارے میں کافی پرامید نظر آرہے تھے۔ مگر میرا رونا دھونا پھر وہی تھا کہ دنیا میں ایک طویل مدت تک بہترین فضائی ریکارڈ، تربیت اور منافع کا ریکارڈ رکھنے والی P.I.A ہر جانب سے اگر OK ہے تو پھر عوامی اعتماد کی طیاروں پر بحالی، طیاروں کی ناگفتہ بہ حالت، فضائی سٹاف، مسافروں سے غیر مہذبانہ حسن سلوک اور آئے روز پرندوں کا طیاروں سے ٹکرانا یہ سب کچھ کیا ہے۔ وقت کی قید کی بدولت C.O.O اور ائرکموڈواور عمران خان کو میں یہ گوش گزارنے میں ناکام رہا کہ 2000 میں پی آئی اے کو ہونیوالے 52 ملین ڈالر کے خسارے پھر 2012 میں اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے 25 ارب روپے کی فوری ضرورت، 2014 میں پھر 2 سو ارب روپے کا خسارہ، اسی برس یورپی اور امریکی کارگو سروس پر پابندی، پھر ٹرپل سیون بوئنگ اڑانے والے وہ 3 ہواباز جو کئی برس تک مبینہ طور پر بغیر ہوا بازی کی ڈگری کے جہاز اڑاتے رہے کا سانحہ، شمالی امریکہ، برطانیہ اور کئی دیگر ممالک میں سٹیشن منیجرز، جنرل منیجرز اور پتہ نہیں کس کس منیجر پوسٹ پر خالصتاً سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں اور 24 طیاروں کو 27 ہزار عملہ سے چلاتے رہنا کہاں کا منافع بخش کاروبار ہے؟ ان معاملات پر پی آئی اے کے چیئرمین، منیجنگ ڈائریکٹر، چیف آپریٹنگ آفیسر اور ڈائریکٹرز نے کیا اقدامات اٹھائے، خسارے کی بنیادی وجوہات سے آگہی کے بعد کونسا لائحہ عمل اپنایا گیا؟ یہ وہ سوالات تھے جو ذاتی طور پر میں Mr. Hilden Brand سے پوچھنا چاہتا تھا مگر افسوس تاخیر سے پریس کانفرنس میں پہنچنے والے C.O.O صاحب سے مزید سوال کرنا مناسب نہ تھا کہ کانفرنس کا وقت اختتام پذیر ہونے میں ایک منٹ باقی تھا۔ تاہم انہوں نے وعدہ کیا کہ ’’ولایت نامہ‘‘ پڑھنے کے بعد وہ اپنا نقطہ ’’نوائے وقت‘‘ تک ضرور بھجوائیں گے۔ اپنی قومی فضائی کمپنی کو منافع بخش، باوقار اور ہردلعزیز بنانے کیلئے پیش کئے اِن حقائق میں میرا رونا دھونا اور چیخ و پکار کہاں تک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے؟ اِس کا فیصلہ اب P.I.A سے دلی محبت کرنیوالے دنیا بھر میں پھیلے محب وطن پاکستانیوں نے کرنا ہے کہ سالانہ 63 اعشاریہ2 ارب ڈالرز کا زرمبادلہ بھجوانے والے پاکستانیوں اور کشمیریوں کا اپنی قومی ائرلائن پر پھر سے اگر اعتماد بحال ہوگیا تو C.O.O کی یہ تاریخی کامیابی ہوگی۔ ورنہ جنرل منیجروں اور ڈائریکٹروں کی تنخواہوں میں حکومت نے 20 فیصد اضافے کا اعلان تو کر ہی دیاہے۔ سادہ ترین حساب سے چیف ایگزیکٹو کی تنخواہ میں 8 لاکھ کا اضافہ ہوگا اور یوں یہ تنخواہ 20 لاکھ تک چلی جائیگی جبکہ ان کا سفری مراعات کا سٹیٹس بھی بدستور قائم رہے گا۔ اسے کہتے ہیں بہترین قومی ملازمت! ( ختم شد)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024