مکرمی! کتنی بد نصیبی کی بات ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں 1974ء میں تربیلا ڈیم کے بعد کوئی بھی بڑا ڈیم پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ہمارے حکمران ہی ہیں۔ یہ لوگ سیاسی مصلحتوں میں اتنے گھرے ہوئے ہیں کہ ان کو قومی ایشوز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ لوگ اپنی اقتدار کی کرسی بچانے کے لئے قومی مفادات کو بھی دائو پر لگانے کو تیار ہیں۔ ہماری ایک بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمیں اچھا لیڈر نہیں ملا۔ اگر ہمارے پاس اچھا لیڈر ہوتا تو وطن عزیز اس وقت اندھیروں میں نہ ڈوبا ہوتا۔ جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں نے پاکستان کے لئے کیا کیا؟ اس سے تو ایوب خان ڈکٹیٹر ہی اچھا تھا کیونکہ اس وقت پاکستان میں جتنے بھی ڈیم ہیں اسی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ورنہ تو جمہوریت کا ڈھول پیٹنے والے تو ایک کالا باغ ڈیم بھی نہ بنا سکے اسے بھی نام نہاد جمہوری سیاست کی نذر کر دیا۔ یہ ڈیم پاکستان کے لئے کتنا ضروری تھا ان کو اس کا اندازہ ہی نہیں۔ کالا باغ ڈیم میں پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8 ملین ایکڑ فٹ ، قابل استعمال پانی کا ذخیرہ 6 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اگر یہ ڈیم بن جاتا تو 3600 میگاواٹ بجلی حاصل ہو سکتی تھی۔ اس کی تعمیر سے سندھ کو 40 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ملتا۔ پنجاب کو 22 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ملتا۔ خیبر پختونخواہ کو 20 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ملتا۔ بلوچستان کو 15 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی مل سکتا تھا۔ اس کے باوجود ہمارے سیاسی لوگوں نے اس بڑے منصوبے کی مخالفت کی۔ حالانکہ ایسے منصوبوں سے پاکستان ترقی کرتا۔ (وزیر نصرت علی، اسلام آباد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38