ڈاکٹر ناصر خان
میکاولی (Niccolò Machiavelli) کا دور 15ویں اور 16ویں صدی کے اٹلی میں تھا، جب یورپ میں سیاسی و سماجی اتھل پتھل تھی اور اٹلی مختلف ریاستوں میں تقسیم تھا۔ اس دور میں اٹلی میں طاقتور خاندانوں جیسے میڈچی خاندان، بورجیا خاندان، اور دیگر مختلف مقامی حکمرانوں کا غلبہ تھا، جو آپس میں اقتدار کے لیے لڑتے رہتے تھے۔ میکاولی نے اس سیاسی فضا میں خود کو ایک مصنف، سفارتکار، اور تجزیہ کار کے طور پر شناخت بنایا۔میکاولی کا دور رینیسنس (Renaissance) کے دور سے تعلق رکھتا ہے، جو یورپ میں علم، فنون، اور فلسفے کی ترقی کا دور تھا۔ اٹلی میں ریاستیں زیادہ تر چھوٹی اور آزاد تھیں، اور اس کے حکمران اکثر داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا کرتے تھے۔ اس وقت کی سیاسی اور عسکری صورتحال نے میکاولی کو ریاست کی حکمرانی اور طاقت کے بارے میں اپنی گہری بصیرت فراہم کی۔ اس دور کی جنگوں، حکومتی سازشوں اور سیاسی چالبازیوں نے میکاولی کے ذہن میں یہ خیالات پیدا کیے کہ سیاست میں اخلاقیات یا اصولوں سے زیادہ، طاقت اور حکمتِ عملی ضروری ہوتی ہے۔
اس کے خیالات خاص طور پر اس کی مشہور کتاب "دی پرنس" (The Prince) میں سامنے آئے، جو سیاسی حکمت عملی، حکمرانی اور اقتدار کے حصول پر مرکوز ہے۔ میکاولی کا ماننا تھا کہ سیاست میں کامیابی کے لیے اخلاقیات سے زیادہ عملی حکمتِ(Pragmatism) , چالاکی، موقع پرستی، فریب، خوف اور طاقتضروری ہے۔ اس کی نظریات نے دنیا بھر کے حکمرانوں اور سیاستدانوں گہرے اثرات مرتب کیے، اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھی ان کے اصولوں کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔
میکاولی کے مطابق اقتدار کا حصول اور اس کا تحفظ حکمران کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ان کے مطابق حکمران کو اپنے دشمنوں کو کمزور کرنے اور اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے اقدام سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ نواز شریف کو بار بار "چور" کہنا بھی میکاولی کی فلسفے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کے تحت سیاست میں حریفوں کو کمزور کرنے کے لیے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ایک عام حکمتِ عملی ہے۔ میکاولی کے مطابق، اقتدار کے کھیل میں حکمران یا سیاسی رہنما کو اپنے مخالفین کے خلاف ایسی چالاکیاں اور الزامات کا استعمال کرنا چاہیے جو عوام کے دلوں میں شک پیدا کریں اور انہیں اپنے حریفوں سے بدگمان کریں۔ پاکستان کی سیاست میں یہ حکمتِ عملی بارہا استعمال ہوئی ہے، جہاں سیاسی رہنما ایک دوسرے کے خلاف کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات لگاتے ہیں تاکہ عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔
میکاولی کا مشہور قول " The ends justify the means”سیاست میں ایک اہم اصول کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی حکمران کا مقصد ریاست کو مستحکم کرنا ہے تو وہ کسی بھی طریقہ اپنانے میں حق بجانب ہے، چاہے وہ اخلاقی ہو یا غیر اخلاقی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ نظریہ کئی بار نظر آ چکا ہے۔2022 میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پاکستان کی سیاست کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی .. اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو ہٹانے کے لیے مختلف سیاسی چالوں کا سہارا لیا، جیسے کہ اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانا اور حکومت پر اقتصادی بدحالی، مہنگائی، اور دیگر مسائل کا الزام عائد کرنا۔ یہ تمام اقدامات اس مقصد کے تحت کیے گئے کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو اور حکومت تبدیل کی جا سکے۔ دوسری طرف، عمران خان نے اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے غیر متوقع فیصلے کیے، جیسے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی کوشش اور جلسوں کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرنا۔ دونوں اطراف نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایسے وسائل کا استعمال کیا جو بظاہر متنازعہ اور غیر روایتی تھے۔ اس مثال میں میکاولی کا یہ اصول عیاں ہے کہ سیاسی میدان میں مقصد کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے، چاہے اس کے لیے اپنائے گئے وسائل پر کتنا ہی اعتراض کیوں نہ کیا جائے۔
میکاولی کے نزدیک ایک حکمران کو عوام پر حکمرانی کرنے کے لیے محبت سے زیادہ خوف کا استعمال کرنا چاہیے، کیونکہ خوف زیادہ پائیدار ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ اصول سیاسی حکمرانی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میکاولی کے مطابق، اگر حکمران خوف کے ذریعے عوام کو قابو میں رکھتا ہے، تو اس کی حکمرانی طویل المدت اور مضبوط ہوگی۔ تاہم، وہ یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ خوف کو ظلم میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ظلم عوام میں بغاوت کا باعث بن سکتا ہے۔
پاکستان میں کئی حکمرانوں نے طاقتور حکومت قائم کرنے کے لیے خوف کا استعمال کیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوجی حکمرانی میں خوف کا عنصر نمایاں تھا۔ دونوں حکمرانوں نے اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کیا اور مخالفین کو جیلوں میں ڈالا یا سیاسی طور پر ان کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس خوف کے ماحول نے عوامی حمایت کے باوجود ان کی حکومتوں کو دوام بخشا، تاہم کسی نہ کسی وقت یہ خوف ظلم میں تبدیل ہو جاتا اور بغاوت کے امکانات بڑھ جاتے تھے، جیسے کہ 2007 میں پرویز مشرف کے خلاف وکلا تحریک۔
میکاولی نے حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ہمیشہ ریاست کے مفادات کو ذاتی مفادات پر فوقیت دیں۔ ایک کامیاب حکمران وہ ہوتا ہے جو ریاست کی بقا اور ترقی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے۔ پاکستان میں یہ نظریہ کئی بار نظر آیا ہے، خاص طور پر 2001 میں جب پاکستان نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی اتحادی بننے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو بعض حلقوں میں اخلاقی طور پر متنازعہ قرار دیا گیا، تاہم حکومت نے اسے پاکستان کے ریاستی مفادات کے تحت صحیح قدم سمجھا۔
میکاولی کے مطابق، سیاست میں کامیابی کے لیے حکمران کو چالاک لومڑی اور طاقتور شیر دونوں کی صفات رکھنی چاہیے۔ حکمرانوں کو اپنے دشمنوں اور عوام کے ساتھ چالاکی سے پیش آنا چاہیے اور موقع آنے پر دھوکہ دینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان میں یہ دونوں صفات سیاستدانوں میں بار بار دیکھی گئیں۔ سیاست میں چالاکی کے ساتھ ساتھ دھوکہ دہی کا استعمال بھی کیا گیا۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں اکثر اپنے حریفوں کو سیاست میں دھوکہ دینے کے لیے چالاکی سے اتحاد بناتی ہیں اور پھر اپنے مفادات کے حصول کے لیے ان اتحادوں کو توڑ دیتی ہیں۔ ایسا ہی حال نواز شریف، عمران خان اور بے نظیر بھٹو کے درمیان متعدد بار دیکھنے کو ملا، جہاں سیاسی مفادات کے تحت ایک دوسرے کو دھوکہ دیا گیا اور چالاکی سے اقتدار کی جنگ لڑی گئی۔
میکاولی کا خیال تھا کہ حکمرانوں کو اپنی حکمرانی کو مستحکم رکھنے کے لیے بعض اوقات غیر اخلاقی طریقے اپنانے پڑتے ہیں، کیونکہ سیاسی میدان میں کامیابی کا دارومدار زیادہ تر عملی حکمتِ عملی اور وقت کے تقاضوں پر ہوتا ہے۔ میکاولی کے مطابق، ایک حکمران کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ اس کے فیصلے اخلاقی طور پر درست ہیں یا نہیں، بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف ریاست کی بقائ اور طاقت کا تحفظ ہونا چاہیے، چاہے اس کے لیے اخلاقی حدود سے تجاوز کرنا پڑے۔میکاولی کے مطابق، ایک حکمران کو اپنے فیصلوں کی اخلاقی حیثیت کے بجائے ریاست کی بقائ اور طاقت کے تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہیے، اور یہی طرزِ عمل کئی بار پاکستان کی سیاست میں نظر آیا ہے۔
حکمران کی ذہانت کا اندازہ کرنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ آپ دیکھیں کہ اس کے ارد گرد کون لوگ ہیں۔" ایک حکمران کے مشیر، کابینہ کے اراکین، اور قریبی ساتھی اس کی حکمتِ عملی، وڑن، اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کا مظہر ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں، مختلف ادوار میں حکمرانوں کے قریب رہنے والے افراد نے نہ صرف ان کے فیصلوں پر اثر ڈالا بلکہ ریاست کی سمت کا تعین بھی کیا۔ مثال کے طور پر، جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے ارد گرد موجود ٹیکنوکریٹس اور فوجی مشیر ان کی پالیسیوں کا عکاس تھے، جنہوں نے ریاستی امور میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح، عمران خان کی حکومت کے دوران ان کے منتخب کردہ وزرائ اور مشیروں کی کارکردگی نے ان کے فیصلوں اور طرز حکمرانی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس تناظر میں، میکاولی کا یہ اصول پاکستان کی سیاست کو سمجھنے کے لیے ایک اہم رہنما ہے کہ حکمران کی ذہانت اور حکمرانی کی قابلیت کو جانچنے کے لیے اس کے ارد گرد کے لوگوں کا جائزہ لیا جائے۔
ڈاکٹر ناصر خان
میکاولی کے نظریات اور پاکستان کی سیاست
Jan 28, 2025